تحریر۔۔۔چوہدری ناصر گجر
کچھ قومیں آپسی اتفاق اور محنت کی وجہ سے ترقی پا کر ایک مقام بنا چکی ہیں اور کئی قومیں باہمی منافرت اور تعصب کی وجہ سے انتہائی پستی کا شکار ہیں ۔بس سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، مو¿من مر د کی پہچان ہی اس کا فہم و فکر اور دانش و دور اندیشی ہے۔ شاید ہماری کئی غلطیاں اور منافقتیں آج ہمیں اس دہانے پر لے آئی ہیں کہ ہم سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک نا دیدہ ضد و انا کی بیڑیوں میں جکڑ چکے ہیں جن سے ہم چاہ کر بھی چھٹکارہ نہیں پانا چاہتے ۔جب برطانوی تسلط ٹوٹنے لگا تھا اور برصغیر کی آزادی کیلئے باتیں ہو رہی تھیں تو انہی دنوں میں مسلمانوں کی آزادی کیلئے ایک آزاد ملک پاکستان کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے تھے۔ جنہیں سیاسی چالوں کے ذریعے عوام میں سازشوں کی نظر کرتے ہوئے ایسی دقیانوسیت پھیلائی گئی جس سے ہم آج تک چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائے۔آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے کے مصداق انگلش راج کے ہاتھوں نکل کر اسی راج کے بنائے ہوئے جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ہمیں ہمیشہ انگریزی سازشوں کے ذریعے بانٹ کر مارتے آئے ہیں اور آج جب شعور بیدار ہورہا ہے تو ایسی ایسی غلط افواہوں سے عوام کا دماغ مفلوج کر رہے ہیں جس کی کوئی سچائی نہیں، ہاں مگر ان افواہوں کی زد میں اس وقت پوری پاکستانی عوام ہے۔ایک سوچی سمجھی چال کے تحت غریب کی بات کرنے والوں کو دبا نے کی کوشش کی جاری ہے اورکافی حد تک یہ بہروپیے کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ان مختلف سازشوں میں سبھی شامل ہیں جن کی وڈیرہ شاہی کے استعمار اب مسمار ہوتے نظر آتے ہیں۔ہر طرف افرا تفری کا عالم ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے سمیت دنیا بھر کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔آئی ایم ایف کی نئی سربراہ نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ دنیا بھر کی لگ بھگ ستر فیصد کے قریب معیشت کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔پاکستان میں ایک منظوم پراپیگنڈے کے تحت کئی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں جو سچائی اور عوام کے درمیان دیوار بنی ہوئی ہیں۔ کسی ٹی وی چینل نے کوئی رپورٹ نہیں دی کہ پاکستانی معیشت کس قدر مضبوط ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں ہو رہی ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ اس وقت کی جی ڈی پی میں قوت خرید اب 1195 بلین ڈالرہو چکی ہے جو پہلے 1141 بلین ڈالر تھی، انفلیشن 7.6% رہ گئی ہے جو سابقہ حکومت میں نو کے قریب تھی، ایف بی آ ر نے صرف ایک سال میں تیس بلین ڈالر کا ٹیکس ریوینیو اکٹھا کیا ہے اور اسی ہزار فائلرزبنائے ہیں، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 55% کم ہو چکا ہے ،برآمدات میں سولہ فیصد تک کا اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ اسی طرح ہر سطح پر ریفارمز لا کر معاشی عدم استحکام پر قابو پایا جا رہا ہے۔اس طرح کا حکومتی نظام کبھی نہیں دیکھا جیسا اب دیکھا جا رہا ہے کہ اگر حکومت اس ملک کیلئے کچھ کرنا چاہ رہی ہے تو اس کے آڑے خود ملک کے ستون کھڑے ہوئے ہیں ۔پہلے اداروں سمیت ملک کا ہر فرد اس بات پر متفق رہا ہے کہ اس نظام کو تبدیل ہونا چاہئے، کیونکہ یہ سڑا ہوا بد بو دار نظام ہے اور آج اگر کوئی اس کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے تو سارے ہی اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں ، بلکہ ہر قدم پر اس کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس بوسیدہ نظام کو بچانے کیلئے تمام لٹیرے اور اچکے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں ، جو مختلف ذریعوں سے بلیک میلنگ اور انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف ٹیکس چور ہڑتالوں کے ذریعے بلیک ملنگ کر رہے ہیں تو دوسری کرپشن کے دیوتا احتساب کے جن کو قابو کرنے کیلئے کبھی دھرنوں کا جال بنتے ہیں تو کبھی ملکی سالمیت پر بلیک میلنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پچھلی ایک دہائی سے جن صحافیوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا وہ بھی اپنے پیٹ کی لگی آگ کو بجھانے اور اپنی عیاشیوں کو بچانے کیلئے احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے ۔لیکن ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ عوام نے ان کی کسی بھی سازش پر کان نہیں دھرے اور عوام کی طرف سے انہیں کسی قسم کی کوئی ہمدردی اور حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ جس کے نتیجے میں بدمعاشیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بدمست ہاتھی کی طرح غلطی پہ غلطی کئے جا رہی ہے۔ایک طرف تو وہ ملکی نظام کو غلط قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف ملکی سلامتی کے اداروں پر تنقید کر کے بیرونی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ان کی حقیقی پوزیشن اور بھی زیادہ واضح ہو کر عوام کے سامنے بے نقاب ہو جاتی ہے ۔ بہر طور بدمعاشیہ اور لٹیرے اپنی سازشوں سے اتنا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو ملکی استحکام میں رخنہ ڈال کر وہ وقتی طور پر حکومتی راہ میں رکاوٹ پیدا کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھارت کے خلاف کامیاب خارجہ پالیسی میں رکاوٹ ڈال کر کشمیر کے معاملے میں بھارت کو وقتی طور پر ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب بھارت پر گزشتہ بڑھتا ہوا عالمی دباﺅ کم ہو گیا ہے۔ دھرنے جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ اس قسم کی سنسنی پر مکمل طور پر پابندی لگانے کیلئے قانون سازی کریں۔ صحافیوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ کسی تنظیم کے عسکری ونگ کی وردی پہن کر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر جانبدارانہ بیانات دیں۔ پاکستان کے کئی میڈیا ہاﺅسز انڈین میڈیا جیسی انارکی پھیلانے کا کام کر رہے ہےں جو عوامی ذہنوں اور نئی نسلوں کیلئے کسی سرطان سے کم نہیں ۔ صحافی جو نام کمانے کیلئے صرف منفی سوچوں کو فروغ دیتے ہیں اور ہمیشہ صرف اپنے نادیدہ آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے ملکی سالمیت کے اداروں پر تنقید برائے تنقید کرتے نظر آتے ہیں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان کے لگائے گئے الزامات کی انکوائری کی جائے تاکہ ان کے چاہنے والے جان سکیں کہ یہ لوگ ملک کیلئے کتنا بڑا ناسور ہیں ۔