تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
پاناما لیکس سے سیاست میں ایک بھونچال پیدا ہو چکا ہے پاناما انکشافات کے بعد پاکستان سمیت کئی ممالک کے حکمران اس کی زد میں آئے کچھ حکمران مستعفی ہوئے کئی کے خلاف انکوائری شروع ہوئی اور کئی حکمران اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں کے نشانے پر ہیں کل کے دشمن آج کے دوست اور کل کے دوست آج کے دشمن بنتے دکھائی دے رہے ہیں اسی لئے تو کہتے ہیں سیاست کی آنکھ حیا سے خالی ہوتی ہے اور اس کے سینہ میں دل بھی نہیں ہوتا پاناما لیکس کے بعد حکومت کا عوامی رابطہ مہم شروع کرنا،حکومت سے باہر کی جماعتوں میں نئی صف بندیاں،آرمی چیف کا اپنے ہی گھر سے کرپشن میں ملوث افراد کا احتساب ،فرینڈلی اپوزیشن کا نہایت گھن گرج کے ساتھ حکومت کو للکارنا،الطاف بھائی کی ایم کیو ایم کو توڑ کر پاک سر زمین پارٹی کا بننا،پاکستان تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات کا کھل کر سامنے آنا،چوہدری سرورکا اچانک لندن روانگی کا فیصلہ پھر کپتان کی مداخلت پہ لندن روانگی کا ملتوی ہونا،شاہ محمود قریشی کا اپنی سابقہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں رہنایہ بھی شنید ہے کہ قریشی صاحب پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلیں،طویل عرصہ کے بعد پیپلز پارٹی کی لال حویلی میںآمد،ایک ہی روزتین سیاسی پارٹیوں (جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے)کا عوام سے خطاب کرنا،آزاد کشمیر میں بلاول بھٹو کا وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا،مستعفی ہونے کے مطالبے کو اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ کا یہ کہنا یہی مطالبہ میرا ہے ،پی پی پی کی لیڈر شپ کازرداری کے سواحکومت کے خلاف ڈٹ جانا،عمران خان کا زندہ دلانِ شہر لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرنا،پی ٹی آئی کا کرپشن کے خلاف سندھ میں تحریک چلانااور اس تحریک میں زرداری کے خلاف ایک لفظ تک نہ کہنابلکہ ٹارگٹ وفاقی حکومت کو بنانا،چھوٹے میاں کا تلملا کربلاول کو کرپٹ شخص کے بچے کا طعنہ دینا،ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا لاہور میں چوہدری اعتزاز احسن کے گھر اکٹھا ہوکر ’’بڑے میاں ‘‘ کے خلاف مستعفی ہونے کے ایک نقطہ پہ متفق ہونا(پی پی پی اور پی ٹی آئی کا)،چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کا مطالبہ کرنا،آٹھ ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا مطالبہ کرنا،اپوزیشن جماعتوں کا پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے بین الاقوامی آڈٹ فرم کی خدمات پہ اتفاق کرنا معمولی نوعیت کے واقعات نہیں بلکہ یہ سب کچھ غیر معمولی ہے نئی صف بندیوں کے ساتھ نئے مناظر کے خدوکھال سامنے آ رہے ہیں نئے منظر نامہ میں حکومت کی حمایت اور مخالفت میں دوگروپ آمنے سامنے آ چکے ہیں فرینڈلی اپوزیشن والے شاید یہ بات جان چکے ہیں اگر انہیں عوام میں زندہ ہونا ہے تو پھر انہیں حقیقی اپوزیشن کا رول ادا کرنا ہی پڑے گا سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی نے اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس مفاہمتی پالیسی نے بھٹو کی پارٹی کی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا پی پی پی کی نظریاتی قیادت سمجھتی ہے اگر آنے والے الیکشن جو کہ ممکن ہے وقت سے پہلے ہو جائیں میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو پھر زرداری کی ’’مفاہمتی پالیسی ‘‘کو ترک کرتے ہوئے پارٹی کے بنیادی منشور پہ عمل ضروری ہے یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے پی پی پی کا نظریاتی ووٹر اب بھی موجود ہے لیکن انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا اب بھی اگر بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دے دیا جائے تو پی پی پی کے نظریاتی رہنماؤں سمیت نظریاتی ووٹر اور سپورٹرپھر سے پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکتے ہیں۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا اتحاد فطری نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں سیاسی قوتیں ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار رہی ہیں موجودہ حالات میں پی پی پی اور پی ٹی آئی اگر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں تو ان سیاسی قوتوں کے سامنے حکومت شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے
پاناما لیکس کے انکشافات کے بعداٹھنے والا سیاسی طوفان اتنی جلدی تھمنے والا نہیں جتنا ایزی اسے حکومت سمجھ رہی ہے حکمرانوں کے دامن صاف ہیں تو انہیں کس بات کا خدشہ اور ڈر ہے اپوزیشن آٹھ ہفتوں میں تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے میاں صاحب خود کو اقتدار سے الگ کرلیں کلیئر ہونے کے بعد پھر سے وزارت عظمی کا قلم دان سنبھال لیں کرپشن میں ملوث ہر شخص کا احتساب وقت کی ضرورت ہے اور یہ احتساب سیاسی ہمدردیوں سے بالا تر ہونا چاہئے مشاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ بڑے میاں قسمت کے دھنی ہیں دھرنے کے دنوں میں جب حکومت ہچکولے کھا رہی تھی یہ قسمت ہی تو تھی جو انہیں اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھائے رکھا یہ الگ بات ہے کہ ’’بڑے میاں ‘‘کے ڈوبتے اقتدار کو بچانے کے لئے وہی شخص آیا جسے آج ’’چھوٹے میاں ‘‘کرپٹ کہہ کر اپنا غم غلط کر رہے ہیں اب جبکہ ایک بار پھر ’’ بڑے میاں ‘‘ پاناما لیکس کے باعث دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں دیکھنایہ ہے کہ کیا اس بار بھی قسمت کی دیوی ان پہ مہربان ہوتی ہے یا نہیں ،زرداری کی مفاہمتی پالیسی میاں صاحب کے کام آتی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن حکمران جماعت میں اندرونی اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ‘‘یہ باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ’’چھوٹے میاں ‘‘ بھی وزارت عظمی کا تاج اپنے سر پہ دیکھنا چاہتے ہیں عسکری حلقوں میں بھی انہیں پذیرائی مل سکتی ہے لیکن عسکری قیادت میں ایک ’’ چوہدری ‘‘ بھی اپنا ایک خاص اثر رکھتے ہیں جو ’’ چھوٹے میاں ‘‘ کے نزدیک سمجھے جاتے ہیں وہ بھی وزارت عظمی کے ارمان دل میں سجائے بیٹھے ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونااور ردعمل کے طور پہ وزیر اعظم کا 2018ء کے بعد بھی حکومت میں رہنے کا اشارہ سیاسی ماحول کو گرمانے کے لئے کافی ہے اس وقت ملک عزیز جن حالات سے دوچار ہے اگر ان حالات میں حکمرانوں سمیت سیاست دانوں نے معاملہ فہمی،بالغ نظری اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر سیاست دانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ وہی آئیں گے جو کم از کم دس سال سے پہلے جانے والے نہیں ہوتے۔