تحریر۔۔۔ میر افسر امان
سید ابو الااعلیٰ مودودیؒ اپنے رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک عرصہ سے برصغیر کے مسلمانوں اورہندوؤں ں کو خاص کر اور دنیا کے لوگوں کو اُمومی طور پر اِس دنیا میں حکومت الہیا کے قیام کی طرف دعوت دیتے رہے۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی فکر کو ان کے رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودیؒ کو اس بات پر راضی کیا کہ پنجاب کا خطہ اسلام سے محبت کرتا اس لیے آپ حیدر آباد سے پنجاب تشریف لے آئیں اور اپنے کام کو جاری رکھیں۔علامہ اقبال ؒ نے مولانا مودودیؒ کو پنجاب پٹھان کوٹ جمال پور میں بلایا اور کہا کہ وہ خود بھی سال میں چھ ماہ ان کے ساتھ پٹھان کوٹ میں رہا کریں گے۔مولانا مودودیؒ نے علامہ اقبالؒ کی تحریک پر اسلام کے غلبے کے لیے حیدر آباد سے پنجاب ہجرت کی اوریہ کام پٹھان کوٹ جمال پور میںآکر جاری رکھا۔ اللہ کا کرنا کے اس کے بعد جلد ہی علامہ اقبال ؒ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ غیر مسلموں نے تومولانا مودودیؒ کی حکومت الہیا کی طرف دھیان نہ دیا مگر برصغیر کے مسلمانوں میں کچھ لوگ اس کے لئے تیار ہو گئے۔ ان لوگوں میں سے ۷۵؍افراد برصغیر کے مختلف علاقوں سے لاہور میں جمع ہوئے۔پھر ۱۹۴۱ء میں مولانا ابوالااعلیٰ موددیؒ کی سربرائی میں جماعت اسلای کا قیام عمل میں آیا۔ شروع دن سے جماعت اسلامی اقبالؒ کے خواب اور قائداعظمؒ کے وژن، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے مطابق پاکستان میں حکومت الہیا کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔اب جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ بھارت،بنگلہ دیش،کشمیر اور سری لنکا میں بھی حکومت الہیا کے قیام کے لیے ہی کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں مولاناموددیؒ کی فکر کے مطابق مختلف اسلامی تنظیمیں کام میں مدد کر رہی ہیں۔جماعت اسلامی کے قیام کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ کسی طرح پھر سے مدینہ کے طرزکی اسلامی فلاحی حکومت الہیا قائم ہوجائے۔ خلفائے راشدینؓ کے دور کی کامیاب حکومت کے بعد جب مسلم حکومت میں خرابی پیدا ہونے لگی اور اقتدار جمہوری طریقے منتقل ہونے کے بجائے کسی خاص فرد اور قبیلے کی طرف منتقل ہونے لگا۔ یعنی خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو خرابی نے جڑپکڑی۔ قرآن کے احکامات کے مطابق حکومت الہیا کا مقصد پوری دنیا میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جو رُک گیا۔ اسلامی حکومت کی جگہ مسلم حکومت کی بنیاد پڑھ گئی۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے دوران ہی پورے عرب پر اس کی حکمرانی قائم ہو گئی تھی۔اس کے بعدخلفائے راشدینؓ کے دور میں روم و ایران کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسلام کا بابرکت نظام قائم ہوا۔پھر بنو اُمیہ کے دور خلافت کے دوران ۹۹ ھ تک کم و پیش اُس وقت کی دنیا کے معلوم چار براعظموں کے دو تہائی حصہ پر اسلام کا بابرکت نظام غالب ہو گیاتھا۔مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دنیا میں کامیابی سے حکمرانی کی۔جو ۱۹۲۲ء تک عثمانی ترکوں کی خلافت ختم ہونے تک قائم و دائم تھی۔پھر فطرت کے عین مطابق مسلمان عروج کے بعد تنزل کی طرف گامزن ہوئے۔ مسلمانوں نے جن رومیوں اور ایرانیوں کی جبر کی حکومتیں کو ختم کر کے اسلام کے پر امن نظامِ حکومت کی دھاک بیل ڈالی تھی۔مسلمانوں کی کمزرویوں کی وجہ سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو زیر کرلیا ۔ دوسری طرف تاتاریوں نے بھی مسلم دنیا کو پارا پارہ کر دیا۔ برصغیر پر بھی انگریز قابض ہو گئے۔ اے کاش! اگر مسلم حکومتوں میں روح بلالیؓ قائم ودائم رہتی تو ساری دنیا اس کی برکات سے مستفید ہوتی اور مسلمان کبھی بھی غلام نہ بنائے گئے ہوتے! اسی تناظر میں جماعت کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب نے اسلام اور اس کی نشا ۃ ثانیہ کے لیے اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں پر سوچ بچار اور گہرے مطالعہ کے بعد ایک لائحہ عمل تیار کیا۔اس لائحہ عمل سے مسلمانوں میں پھر سے روح بلالیؓ ڈالی اور اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل صرف اورصرف پھر سے حکومت الہیا کے قیام ہے۔اُسی وقت سے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تیسری نسل اِسی مقصد کے حصول کے لیے ،جماعت کی ترتیب دی ہوئی پالیسی ،تطہیر افکار، تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش اور تربیت اور نظام حکومت کی تبدیلی پر ہی کام کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے اِسی پروگرام کے چوتھے حصہ نظامِ حکومت کی تبدیلی کے تحت پاکستان کے الیکشنوں میں بھی حصہ لیتی رہی ہے۔ مگر الیکشن میں جماعت اسلامی کو ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ جماعت اسلامی کب الیکشن میں کامیاب ہوتی ہے۔مگر جماعت کے کارکنوں کو یہ ضرور معلوم ہے کہ ملک میں اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے لیے اپنے جانیں کھپانا ہے۔اگران کی زندگانیوں میں کامیابی نصیب نہیں ہوتی تو یہ اللہ تعالیٰ کی مشیعت ہے۔اللہ کے وعدے کے مطابق آخرت میں جنت تو ضرور ملے گی۔ اس لیے الیکشن میں ہار جیت وقتی معاملہ ہے۔دنیا اور اُخروی فلاح کے لیے کام کرنے والے جماعت اسلامی کے کارکنوں نے مثل مدینہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان ،قائد اعظم ؒ کے دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی کامیابی کے لیے جو جدو جہدکی اوراپنی جوانیاں نثار کی ہیں اللہ کے ہاں اُن کی قدر ہے ۔الیکشن میں ہار جیت کو ایک طرف رکھ کر مملکت کے بڑے کنویس کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں کو تولتے رہنا چاہیے۔ اس راستہ سے اگر حکمران ہٹ جائیں تو ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار
رہنا چاہیے ۔ ورنہ لوگ سمجھنے لگیں کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں میں روح بلالیؓ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ الیکشن کے ذریعے حکمرانی تو آنی جانی شے ہے۔اللہ تعالیٰ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست پاکستان کو قائم دائم رکھے۔
الیکشن میں جیت کر آنے والے حکمران نے بھی اپنی الیکشن مہم میں عوام سے علامہ اقبالؒ کے خواب ،قائد اعظمؒ کے وژن اور مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کی طرز پر پاکستان میں نظامِ حکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ جماعت اسلامی کو الیکشن کی شفایت پر شکایت ہے۔مگرجماعت اسلامی مملکت اسلامیہ جموریہ پاکستان کو افرا تفری سے بچاتے ہوئے، حکومت کو مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے پورا وقت دے گی۔وہ اس کام میں حکومت کا ساتھ دی گی۔ملک میں انتشار پھیلانے کی کسی بھی منفی سیاست میں شامل نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ میں رہ کر حکومت کی غلط پالیسیوں پر بھر پور تنقید کرے گی۔
صاحبو!صرف مخالفت برائے مخالفت سے ملک کا بھلا نہیں۔ اس سے ہمارے دشمن اور خاص کر بھارت فائدہ اُٹھانے کی تاک میں رہتا ہے۔اس نے پہلے اعلانیہ پا کستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اب اُس نے پاکستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اعلانیہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔اگر ملک ترقی کرے گا تو سب پارٹیوں کو سیاست کرنے کا موقعہ ملے گا۔ اگر ملک میں دشمن دہشت گردی کرتا ہے تو سیاسی پارٹیاں سیاست کہاں کریں گی؟ اس موجودہ حکومت کو کرپشن کے خلاف اور ملک میں مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کا پورا پورا موقعہ ملانا چاہیے۔ جماعت اسلامی پہلے کی طرح اپنے صفیں مضبوط کرنی میں لگی ہوئی ہے۔ جماعت کے امیر نے پورے ملک کے دورے کر کے کارکنوں کو مطمئن کیا ہے۔ اگر حکومت نے اپنے ایجنڈے سے روگردانی کی تو جماعت اسلامی تازہ دم ہو پھر سے سامنے آ جائے گی۔ اس ملک کا مقدر علامہ اقبال ؒ کے خواب، قائد اعظمؒ کے وژن اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے علاوہ کچھ نہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے وزیروں کے دلوں میں بھی روح بلالیؒ ڈالیں تاکہ اس کے لیے آسانی ہو۔ آمین۔