ایم پی خاں
اردوادب کے چراغ بجھتے جارہے ہیں۔ گذشتہ دوتین سال میں اردوادب کے ایسے قیمتی شخصیات ادبستان اردوکو الوداع کہہ گئے ،جن کی بدولت ہماری ادبی دنیا آبادتھی، ان میں سے ایک فہمیدہ ریاض بھی ہے۔ فہمیدہ ریاض کی ولادت 28جولائی 1945کو میرٹھ میں پیداہوئیں۔خاندان میں پہلے ہی تعلیم کارجحان زیادہ تھا، اسی طرح فہمیدہ ریاض کو خاندان ہی میں تعلیمی ماحول میسرآیاتھا۔آزادی کے بعد فہمیدہ ریاض کاخاندان پاکستان منتقل ہوااورحیدرآبادسندھ میں سکونت اختیارکرلی۔یہاں انہوں نے اپناتعلیمی سلسلہ جاری رکھااورماسٹرکی ڈگری حاصل کی۔ 1967میں فہمیدہ ریاض لندن چلی گئیں اوروہاں بی بی سی سے اپنی صحافتی زندگی کاآغازکیا۔ ابتدا میں فہمیدہ ریاض کارجحان شاعری کی طرف تھا ۔ا س سلسلے میں انہوں نے پہلی نظم لکھی جورسالہ فنون میں شامل ہوگئیں۔ شاعری کاپہلامجموعہ پتھرکی زبان 1967میں منظرعام پرآیا۔ان کی شاعری میں عورت کاذکرزیادہ ہے اورعورت سے متعلق معاشرتی روئے اورجنسی رجحانات کے حوالے سے اس نے بہت کچھ لکھا،یہاں تک جنرل ضیاء الحق کے دورمیں انکے خلاف فوجداری مقدمات قائم کئے گئے اوراسے مجبوراً ہندوستان میں جلاوطنی کی زندگی گزاناپڑی اورجنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعدپھرپاکستان چلی آئیں۔ شاعری کے علاوہ فہمیدہ ریاض کااصل میدان نثرتھا،جس میں اس نے اپنے تخیل کے بل بوتے پر ایسے ایسے شاہکارتخلیق کئے، جن کی بدولت فہمیدہ ریاض کو عالمی شہرت ملی۔وہ نیشنل بک فاونڈیشن کی منیجنگ ڈائرکٹربھی رہی ہیں۔فہمیدہ ریاض کی شخصیت ہر لحاظ سے ہفت پہلو اورشش جہت تھی، خواہ ادب ہو، سیاست ہو، ذاتی زندگی ہویاسماجی خدمات۔ اس نے مولانارومی کی مشہورفارسی مثنوی خانہ گل کااردوترجمہ ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اورشیخ آیازکی کتابوں کاسندھی زبان سے اردومیں ترجمہ بھی اردوادب کے لئے بہت بڑی خدمت ہے۔اردو ادب میں انکی پہچان بطورشاعرہ، ناول نگارہ، کہانی نویس، مترجم اورنقادکی طورپر عالمی سطح پرہوچکی ہے اوراس نے خون دل دیکر ادبستان اردو کی آبیاری کی ہے۔ انکی ذاتی اندگی گوناگوں مسائل اورالجھنوں سے بھری پڑی ہے۔کالج سے فراغت کے بعد ہی انکی شادی کرادی گئی۔ وہ اپنے شوہرکے ساتھ کچھ عرصہ برطانیہ میں رہی لیکن وہ اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ تھی اورمجبوراً اسے اپنے شوہرسے طلاق لیکر پاکستان آناپڑا۔ پاکستان آکر اس نے ایک سیاسی شخصیت ظفرعلی اجان سے شادی کی اوراس دواولادیں ہوئیں۔ان کابیٹاکبیر عین جوانی مین امریکہ میں دوستوں کے ساتھ جھیل میں نہاتے ہوئے ہلاک ہواتھا،جوسانحہ فہمیدہ ریاض کے لئے ناقابل فراموش تھااوراسکی یاد میں فہمیدہ ریاض نے شاعری کی کتاب ’’تم کبیر‘‘ لکھی تھی۔
فہمیدہ ریاض کی سیاسی زندگی بھی مختلف قسم کی نشیب وفرازسے بھری پڑی ہے۔ادبی لحاظ سے وہ ترقی پسند تحریک کی حامی تھیں اوراس سلسلے میں اس نے ایک رسالہ ’’آواز‘‘ جاری کیاتھا،جوکہ ترقی پسند نظریات کے حامل تحریروں پرمشتمل ہوتاتھاجبکہ سیاسی لحاظ سے وہ کمیونسٹ تحریر سے وابستہ رہی تھیں۔انہوں نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف بھرپورمزاحمت کی اورہرمحاذ پربہادری کے ساتھ ڈٹی رہیں۔ انہوں نے بلوچستان کی قومی تحریک کی کھل کرحمایت کی اوراس سلسلے میں جیل کی سزائیں اورجلاوطنی کی زندگی بھی گزاری۔جنرل ایوب خان کے دورمیں بھی اسے راست گفتاری کی وجہ سے حکومت کی جبرسہناپڑی تھی۔سابق جنرل پرویزمشرف کے دورمیں فہمیدہ ریاض نے عدلیہ بحالی تحریک پر کھل کراظہارخیال کیاتھااوراسی طرح حالیہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والی نظریاتی اختلافات پر اوردیگرسیاسی تنازعات پر بھی اچھے اچھے تبصرے کئے ہیں۔اسی لحاظ سے دیکھاجائے توانکی پوری زندگی عملی جدوجہدسے عبارت ہے۔ انکی تصانیف میں پتھرکی زبان ، خط مرموز،گوداوری،کیاتم پوراچاندنہ دیکھوگے،کراچی،گلابی کبوتر،بدن دریدہ،دھوپ ،آدمی کی زندگی، کھلے دریچے سے ، حلقہ میری زنجیرکا،ادھورآدمی،قافلے پرندوں کے،یہ خانہ آب وگل ،سب لعل وگوہراورتم کبیرشامل ہیں۔ اردو ادب کایہ چراغ،جس کی روشنی سے اکسویں صدی کی ادبی دنیاروشنی تھی، بروزبدھ 21نومبر2018کو ہمیشہ کے لئے بھج گیا۔