تحریر: مریم طاہرِ، ہارون آباد
کچھ تعلیمی بورڈز میں بارہویں کے ضمنی امتحانات کا شیڈول جاری ہوا۔ جب رول نمبرسلپ موصول ہوئی تو معلوم ہوا کہ سینٹر گھر سے 4 گھنٹے کی مسافت پرہے۔ دیکھ کر بچی پریشان ہوگئی ہے۔ پریشانی والی بات بھی تھی۔ ایک لڑکی اب اتنا دور کیسے جائے گی اور اگر صبح سویرے وہ نکل بھی جائے تو جب پہنچے گی کیا حالت ہوگی؟۔ اس صورتحال کے پیش نظر یا تو وہ امتحانات نہیں دے پائے گی یا سفر کی تھکن کے باعث اس کی کارکاردگی متاثر ہوگی۔ اگر کالجز کی بات کی جائے تو وہاں پر بھی بچیوں کے لیے ہر ہر موڑ پر کئی کئی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ہم نے حصول علم کو مشکل ترین بنا کر پسماندہ علاقے کے لوگوں کی رسائی سے باہر کردیا ہے۔ دیگر اشیاء کی طرح تعلیمی ادارے بھی غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہیں۔گورنمنٹ کالج میں طالبات کی زیادہ تر شکایت چھٹی کا دیر سے ہونا اور لیکچرز کا نہ ہونا ہے۔ فارغ وقت میں کالج میں پڑھائی کرنا بے معنی ہے چونکہ دوستوں کا ساتھ اور شور اس چیز کی اجازت نہیں دیتا اور لائبریری بہت جلد بند کر دی جاتی ہے۔ آج کے دور میں طالبات ہاتھ میں ڈگریاں لیے نوکری کی تلاش میں پریشان ہیں جب کہ کالج میں اسٹاف کی بے حد کمی ہونے کے باوجود ایک ایک لیکچر میں دو سو سے تین سو طالبات کی تعداد ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا بے حد نقصان ہے۔گورنمنٹ کالج میں جانے کے باوجود اکیڈمیز بھی طالبات سے بھری پڑی ہیں۔ کالج سے سیدھا اکیڈمی جانے کی دشواری۔ سب سے بڑی دشواری تو غریب اور دور سے آنے والے طالبات کے لیے ہے۔ ایڈمیشن کے دنوں میں کالج میں ہر طبقے کی طالبات ایڈمیشن لیتی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر طالبات غریب گھروں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو پرائیویٹ کالجز کی فیس نہیں دے سکتی مگر کیا فائدہ جب گورنمنٹ کالجز کی فیس بھی۔ 6000 ہونے کے باوجود ابھی داخلہ فیس باقی ہو اور پورا سال اکیڈمی الگ اور دورسے آنے والی طالبات کی مشکلات الگ۔ طالبات کو گورنمنٹ کالج کا کوئی فائدہ نہیں۔ ابھی حال میں ہی بی ایس سی میں ہونے والے ایڈمیشن کی فیس5785 روپے رکھی گئی ہے تو غریب گھروں کی طالبات کیا کریں؟ جو پڑھنا تو چاہتی ہیں مگر اپنے گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتیں۔ ان سے پوچھیں تو کہتے ہیں آپ کو سلپ دی ہے دیکھیں اس پر۔ سلپ میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:ایڈمیشن 895، لا ئبریری 500، جنرل فنڈ 50، میڈیکل فنڈ50، بس فنڈ150 اور بھی اس جیسے بہت سے ملا کر پیسے پورے کر دیے جاتے ہیں حالانکہ سب بس میں نہیں جاتیں۔ جو جاتی ہیں ان کی فیس الگ ایسا کیوں؟ سوال وہی ہے کہ وزیر تعلیم اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے کہ کیا غریب طالبات کو پڑھنے کا حق ہے بھی یا نہیں؟ کیا انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر بہتر مستقبل کے لیے تگ و دو کرسکیں۔ اپنے خاندان کی آنکھوں میں پنپنے والے خوابوں کو تعبیر دے سکیں؟؟؟۔کیا گاؤں کے لوگ آج بھی ان پڑھ ہی رہیں گے؟ سب کچھ ہو جا نے کے بعد پھر بھی یہی سننے کو ملتا ہے کہ پڑھنے والی طالبات تو یونیورسٹی چلی گئیں۔ اگر تعلیمی نظام میں اصلاحات نہیں کی گئیں تو پھر شاید طالبات کا مستقبل وہی رہے، جو تھا اور جو ہے۔ ’’ان پڑھ گاؤں کی گنوار لڑکیاں‘‘ یہ جملہ شاید مزید کچھ سالوں تک ہماری ہونہار اور ذہین بچیوں کے ساتھ لگتا آئے۔ بورڈزکو چاہیے کہ اپنا نظام درست کریں۔ کالجز کو بھی اپنے نظام میں اصلاحات کرنی چاہیے۔ نئی حکومت نے بہت دعوے کیے مگر عملی اقدامات تاحال نظر نہیں آرہے۔ اقدامات نہ کیے گئے تو یاد رکھیں ہم پڑھے لکھے پاکستان کا خواب کبھی پورا نہیں کر پائیں گے۔ یہ بچیاں ہمارا کل ہیں، اگر ان کے کل کو اچھا کرنا ہے تو آج ان کی تربیت اور تعلیم کا نظام مفت کریں۔ ایک پڑھی لکھی بچی کل ایک پڑھی لکھی ماں ہے اور ایک پڑھی لکھی ماں پورا پڑھا لکھا خاندان ہے۔