حلیمہ گیلانی
بھارت کو پاکستان کی جانب سے انڈیا کے ساتھ خیرسگالی کے جذبات کے تحت اٹھائے جانیوالے دوستی کے ازخود اقدامات بھی گوارا نہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف دوطرفہ مذاکرات کے دروازے رعونت کے ساتھ بند کرر ہا ہے بلکہ اسکے ساتھ عملا جنگ کی صورتحال پیدا کردی گئی ہے جو اب بہرصورت پاکستان سے بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ وہ بھارت کیلئے کسی قسم کی ریشہ خطمی کی پالیسی طے کرنے کے بجائے اسکے توسیع پسندانہ جنونی عزائم کے توڑ کے عملی اقدامات اٹھائے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی ہر سازش کو منہ توڑ جواب دیکر ناکام بنائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر بھارت اس خطہ میں اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے اور کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ہوتا تو کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد اس کیلئے سنگِ میل بن سکتا تھا۔ اگر وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کی دعوت پر اس تقریب میں شریک ہونیوالے بھارتی پنجاب کے سنیئر وزیر اور سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کی خواہش پر بھارتی سکھ کمیونٹی کی سہولت کیلئے کرتارپور سرحد کھولنے کے عملی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا جس کی وزیراعظم عمران خان نے بھی توثیق کرتے ہوئے کرتارپور راہداری کاسنگ بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس تقریب میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی وزیر خارجہ سشماسوراج اور بھارتی پنجاب کے وزیراعلی امریندر سنگھ سمیت بھارتی وزراء اعلی حکام کھلاڑیوں اور فنکاروں کو بھی مدعو کیا تو خیرسگالی کے اس جذبے کے پیچھے پاکستان کی بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے تنازعات طے کرنے اور اس خطے میں امن و آشتی کی فضا ہموار کرنے کی مثبت سوچ ہی کارفرما تھی۔ اصولی طور پر تو بھارت کی جانب سے پاکستان کی اس مثبت سوچ کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے تھا اور اسکی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی جوابی پیشرفت ہونی چاہیے تھی مگر اسکے برعکس بھارتی فطرت کے عین مطابق مودی سشما سوراج اور امریندر سنگھ کی جانب سے یکے بعد دیگرے کرتار راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت کیلئے پاکستان آنے سے معذرت کرلی گئی جبکہ وزیراعلی بھارتی پنجاب نے تو پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا بھی ضروری سمجھا اور پھر انکی کابینہ کی رکن سمرت کور بادل نے پاکستان آنے کے باوجود پہلے اپنے ساتھی کابینہ کے رکن نوجوت سنگھ سدھو کے بارے میں الٹا سیدھا پراپیگنڈہ کیا اور وزیراعلی امریندر سنگھ سے انکے معاملات کی تحقیقات کرنے کا تقاضا کیا اور پھر انہوں نے وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کیخلاف بھی بھارت پہنچ کر بے سروپا پراپیگنڈہ شروع کر دیا جبکہ بھارتی میڈیا نے تو کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد اور اس میں نوجوت سدھو کی شمولیت پر پاکستان کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی کرتارپور راہداری کے حوالے سے پاکستان کے خیرسگالی کے جذبے کا مذاق اڑاتے نظر آئے جنہوں نے یہ درفنطنی چھوڑی کہ بھارت سے اچھے تعلقات کیلئے پاکستان کو خود کو سیکولر بنانا پڑیگا۔ انہیں یہ مشورہ تو سب سے پہلے ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ جنونی مودی سرکار کو دینا چاہیے جس کے ہاتھوں بھارت کا سیکولرازم والا تشخص کب کا اپنی موت آپ مرچکا ہے اور آج بھارت عملا انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے جبکہ پاکستان کیخلاف یہ بھارتی خبث باطن ہی ہے کہ بھارت کے ہر انتخاب کے موقع پر پاکستان کے ساتھ دشمنی کا ماحول گرمایا جاتا ہے اور انتخابات میں حصہ لینے والی ہر بھارتی جماعت پاکستان دشمنی پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہے جنہوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور کی بنیاد ہی پاکستان دشمنی پر رکھی ہوتی ہے۔بھارتی حکمران بی جے پی نے اسی تناظر میں پاکستان مخالف پراپیگنڈہ میں اضافہ کرتے ہوئے کرتارپور بارڈر کے ناطے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا نیا محاذ کھول لیا ہے جس کے تحت پاکستان مخالف پراپیگنڈہ میں پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے بھارتی شہریوں اور کانگرس کے ارکان کو بھی رگیدا جارہا ہے اور نوجوت سنگھ سدھو کو بھارت میں سفید کوا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اس خطے میں امن کے خواہاں بھارتی باشندوں نے بھی مودی سرکار کے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کا ترکی بہ ترکی جواب دینے اور بھارتی اقلیتوں کے ساتھ جاری اسکے مظالم پر اسے آئینہ دکھانے کی ٹھان رکھی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کررہی ہے کہ مودی سرکار کی ہندو انتہا پسندی اور بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کیخلاف معاندانہ پالیسیوں کے تحت ان پر ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری رہا تو بھارت کے اندر سے ہی اسکی سخت مزاحمت کا سلسلہ شروع ہو جائیگا اور بھارتی مظالم سہنے والے کشمیریوں کے علاوہ بھارتی شہریوں کے مختلف حلقے بھی مودی سرکار کی جنونی پالیسیوں کیخلاف میدان عمل میں اتر آئینگے اور علاقائی اور عالمی فورموں پر مودی سرکار کے ہاتھوں ہندو انتہا پسندی کا راسخ ہونیوالا بھارتی چہرہ بے نقاب کرتے نظر آئینگے۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اس بار پاکستان دشمنی کی بنیاد پر بھارتی الیکشن جیتنا مشکل ہوگا جبکہ بھارتی شہریوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کیلئے دباؤ بڑھے گا تو اپنی تمام تر منافقت اور مکاریوں کے باوجود بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوجائیگی۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی خوشحالی اور اس خطے کے امن و امان کا پاکستان بھارت خیرسگالی کے تعلقات اور اس کیلئے مسئلہ کشمیر کے دوطرفہ مذاکرات کے ذریے یواین قراردادوں کے مطابق حل پر ہی دارومدار ہے۔ پاکستان تو مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار ہے مگر بھارت کی جانب سے ہمیشہ بدخصلتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو آج پاکستان کے خیرسگالی کے جذبات کا بھی پاکستان دشمنی کا ماحول گرما کر جواب دے رہا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں بھارت کے ساتھ خیرسگالی کے یکطرفہ اظہار کی قطعا ضرورت نہیں بلکہ اب اسے اسی کے لہجے میں مسکت جواب دینے کی ضرورت ہے۔