تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں نے ایک عمر رسیدہ بد نصیب والدین جن کی آواز میں ایک درد تھا بے چینی اور بے قراری تھی کو دیکھا جو روتے ہوئے اپنے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے تھے عمر رسیدہ شخص نے اپنی بیوی کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمھیں یاد ہے کہ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو اُس وقت تم سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھی اور میں راج گیری کا ہم دونوں محنت مزدوری کر کے خوشحال زندگی گزار رہے تھے کہ اسی دوران خداوندکریم نے ہمیں چاند سا بیٹا عطا کیا ہسپتال میں بڑے آپریشن کے بعد ہم نے اپنی تمام تر جمع پونجی آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کو دے دی تھی لیکن اس کے باوجود ہم خوش تھے چونکہ ہمارے گھر چاند سا بیٹا پیدا ہوا تھا ہم جب اپنے بیٹے کو لیکر گھر پہنچے تو ہمارے عزیز و اقارب نے ہم سے مٹھائی کھا نے کا مطا لبہ کیا ہمارے پاس جو جمع پونجی تھی وہ تو ہم نے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کو دے دی تھی لیکن اس کے باوجود ہم نے اُدھار مٹھائی لیکر عزیز و اقارب کو کھلائی تھی بعد ازاں ہم نے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کیلئے دن رات مزدوری کرنا شروع کر دی ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے اور ہمارا نام روشن کرے تمھیں یاد ہو گا کہ جب ہمارا بیٹا بیمار ہوا تھا تو ہم نے اپنی تمام جمع پونجی اس کی زندگی بچانے پر خرچ کر دی تھی جبکہ ہم از خود کئی دنوں تک فاقوں میں رہے تھے اس کے باوجود ہمارے حوصلے بلند تھے بالآ خر ہم نے اپنے بیٹے کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرو ا کر دن رات مزدوری کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے حالانکہ اس دوران میں راج گیری اور فاقوں کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہو گیا جبکہ تم دن رات سلائی کڑھائی کا کام کرتے کرتے آ نکھوں کی بینائی سے محروم ہوتی گئی لیکن اس کے باوجود ہم نے ہمت نہ ہاری جس کے نتیجہ میں ہمارے بیٹے نے ایم اے کی ڈگری حاصل کر لی اُس دن ہم نے پورے علاقے میں مٹھائی تقسیم کی تھی اُس دن ہم آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے تھے کہ اب ہمارا بیٹا ہمارا نام روشن کرے گا بعد ازاں ہمارا بیٹا نوکری کی تلاش میں نکل پڑا اور ہم محنت و مزدوری میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے تمھیں یا د ہو گا کہ ہم اپنے قومی و مذہبی تہواروں پر اپنے بیٹے کیلئے مہنگے سے مہنگے کپڑے اور جوتیاں وغیرہ خریدتے تھے جبکہ ہم از خود پھٹے پرانے کپڑے اور جوتیاں پہن لیتے تھے بالآ خر ایک دن ہمارے نے ہمیں یہ خبر دی کہ مجھے ایک اچھی نوکری ملی ہے لیکن دس لاکھ روپے رشوت کے عوض یہ سن کر ہم پریشان ہو گئے تھے کہ ہم اتنی بڑی رقم کہا سے لائے گئے بالآ خر ہم نے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کی خا طر اپنے زیورات کے علاوہ اپنے رہائشی مکان کے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ اس دوران متعدد افراد نے ایسا کرنے سے ہمیں روکا بھی تھا لیکن ہم نے اپنے تمام زیورات و دیگر گھریلو سامان کے ساتھ ساتھ اپنے رہائشی مکان فروخت کر کے دس لاکھ روپے بیٹے کے حوالے کر دیئے تھے جس کے نتیجہ میں ہمارا بیٹا ایک بڑا آ فیسر بن گیا اور یوں ہم ایک سرکاری کوٹھی میں منتقل ہو گئے وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران ہمارے بیٹے نے کوٹھیاں خریدنی شروع کر دی اور بعد ازاں اُس نے دوسرے اضلاع میں پٹرول پمپ بنا لیے زرعی زمینیں خرید لی جن کو دیکھ کر ہم اکثر اپنے بیٹے سے پوچھتے تھے کہ بیٹا اتنی ساری دولت تم کہاں سے لاتے ہو کہیں تم غیر قانونی کام تو نہیں کرتے اور اگر کرتے ہو تو چھوڑ دو چونکہ غیر قانونی کاموں کا انجام بہت بُرا نکلتا ہے اور عاقبت بھی خراب ہوتی ہے یہ سن کر وہ اکثر ہم سے یہ کہتا تھا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو کھاؤ پیو اور عیش کرو یہ سن کر ہم شر مندہ ہو نے کے ساتھ ساتھ پریشان ہو جاتے تھے وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن بے رحم وقت نے ایسی کروٹ بد لی کہ ہمارا بیٹا ہماری اجازت کے بغیر اپنی دلہن لے آیا جس کو دیکھ کر ہم حیران و پریشان ہو کر رہ گئے تھے اور اسی پریشانی کے عالم میں ہم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے تو وہ بڑے غصے کے عالم میں اپنی بیوی کی مو جودگی میں کہنے لگا کہ تم اپنی اوقات میں رہ کر بات کیا کرو تم جیسے جاہلوں کو کیا معلوم کہ سوسائٹی میں مقام کیسے بنایا جاتا ہے تمھارے جیسے جاہل لوگ تو بس ایک گندی نالی کے گندے کیڑے ہوتے ہیں اگر تم لوگوں نے یہاں رہنا ہے تو بس یہاں ملازموں کی طرح رہو ورنہ یہاں سے دفع ہو جاؤ چونکہ آپ کے ہوتے ہوئے مجھے اور میری وائف کو شرم آئے گی آپ کو اپنا بزرگ کہتے ہوئے اور ویسے بھی آپ شکل و صورت سے کسی غریب خاندان کے فرد لگتے ہو اتنا کچھ کہنے کے باوجود اُس نے نوکروں کو سخت لہجے میں کہا کہ ان کا ابھی اور اسی وقت سامان اُٹھا کر کوٹھی سے باہر پھینک دو اور انہیں بھی وہ یہ کہتا ہوا اپنی دلہن کے ہمراہ کوٹھی کی بالائی منزل کی جانب جانے لگا اور یوں ہم اپنے بیٹے کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہو کر روتے ہوئے اپنے بیٹے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کوٹھی سے نکل کر یہاں آ گئے ہیں یہ کہہ کر وہ دونوں میاں بیوی زارو قطار رونے لگ گئے جبکہ اسی دوران بیوی نے روتے ہوئے اپنے خاوند سے پو چھا کہ اب ہم کہاں جائے گئے اور ہمیں دو وقت کی روٹی کون دے گا چونکہ اس عمر میں ہم محنت مزدوری بھی تو نہیں کر سکتے یہ سن کر خاوند نے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جس کا دنیا میں کوئی نہیں ہوتا اُس کا مالک خود خداوندکریم ہو تا ہے جو پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی خوراک مہیا کرتا ہے ہمارا بھی وہی مالک ہے جو ہمارے لیئے کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا کاش خداوندکریم ہمیں ایسا بیٹا عطا نہ کرتا تو آج ہم امن و سکون سے اپنے وراثتی مکان میں رہائش پذیر ہوتے یہ سننے کے بعد بیوی نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اُسے بد دعا نہ دو وہ جہاں بھی رہے خوش رہے ہمارا کیا ہے کہ کس موڑ پر زندگی کی شام ہو جائے یہ کہہ کر وہ لڑ کھراتے قدموں کے ساتھ اپنی انجانی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے جبکہ میں وہی اُن بد نصیب والدین کی ان باتوں کو سننے کے بعد سوچوں کے سمند ر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ یہ حرام کی کمائی گئی دولت کا نتیجہ ہے کہ آج بزرگوں کا احترام بھائی چارہ پیارو محبت رشتے داری فرض شناسی اور اعتماد کا نام و نشان مٹ رہا ہے جو کہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے