حیدرآباد میں بیدخلی کا نوٹس ملنے کے خلاف کچی آبادیوں کے سینکڑوں مکینوں کا احتجاج
حیدرآباد(رپورٹ*جنید علی گوندل) حیدرآباد میں بیدخلی کا نوٹس ملنے کے خلاف کچی آبادیوں کے سینکڑوں مکینوں کا احتجاج ، ریلی میں خواتین و بچوں کی بھی شرکت ،40سال سے بیٹھے ہیں کہیں اور نہیں جاسکتے ،المدینہ کالونی ، کمہار پاڑہ ، ٹنڈو آغا اور ٹنڈو میر محمود کے سینکڑوں باشندوں نے بیدخلی کا سرکاری نوٹس ملنے کے خلاف ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی جو ٹنڈو یوسف ریلوے پھاٹک سے شرو ع ہو کر حیدرآباد پریس کلب پر ختم ہو ئی ریلی میں خواتین و بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھے اس موقع پر علاقہ کے لوگوں نے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے کرپٹ افسران ، ریلوے کے ذمہ داران اور اینٹی انکروچمنٹ کے عملہ کے خلاف نعرے لگائے ریلی سے خطاب کرتے ہو ئے مقررین نے کہاکہ ہم ٹنڈو میر محمود ، ٹنڈو آغا ، المدینہ کالونی اورکمہار پاڑہ میں گذشتہ40سال سے رہ رہے ہیں ہمارے علاقوں میں بجلی وگیس اور پانی کی لائنیں بھی موجود ہیں اور فردِ حقیت بھی رکھتے ہیں لیکن ہمیں نوٹسز جاری کئے گئے ہیں کہ علاقہ غیر قانونی ہے فوری طور پر خالی کردیا جائے انہوں نے کہا کہ یہ ظلم ہے ہم غریب کچی آبادی کے باشندے ہیں ہمارے پاس متبادل بھی نہیں ہے ہم سے چھتیں نہ چھینی جائیں انہوں نے کہا کہ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی ، کپڑا اور مکان ، لیکن ہمارے تو مکان ہی چھینے جارہے ہیں انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں ، عدلیہ،بلدیہ ، ریلوے اور متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کہ انہیں بیدخل نہ کیا جائے اور رحم کیا جائے ۔
فٹ پاتھوں اورنالے پر قائم فرنیچر مارکیٹ کی درجنوں دکانوں کا سامان تحویل میں لے لیا
حیدرآباد(رپورٹ*علی رضا رانا) بلدیہ اینٹی انکروچمنٹ سیل نے اسسٹنٹ کمشنر لطیف آباد جاوید شاہ کی نگرانی میں لطیف آباد یونٹ نمبر12مین روڈ پر کاروائی کرتے ہوئے فٹ پاتھوں اورنالے پر قائم فرنیچر مارکیٹ کی درجنوں دکانوں کا سامان تحویل میں لے لیا،کاروائی کے دوران کئی دکانداروں کو مہلت دینے پر متاثرین کی جانب سے کاروائی کے دوران سخت مزاحمت کی گئی،ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اوربلدیہ عملے نے اعلی عدلیہ اورواٹرکمیشن کے احکامات پر عملی عملدرآمد کی بجائے کاروائی دکانوں کے باہررکھے سامان ،ٹھیلے ،پتھارے تحویل میں لینے تک محدود کردی،درجنوں شادی ہالز کے گرین بیلٹس ،فٹ پاتھ،سڑکوں اورسرکاری اراضی پر قبضوں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی ،تفصیلات کے مطابق بلدیہ اینٹی انکروچمنٹ سیل نے ڈائریکٹر توحیداحمد اوراسسٹنٹ ڈائریکٹر شکیل احمد کی سرکردگی میں پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ لطیف آباد یونٹ نمبر12مین روڈ پر جمعے کے روز لگنے والے بازار کے خلاف بڑاکریک ڈاؤن کرتے ہوئے سڑک ،فٹ پاتھ اورنالے پر فرنیچر رکھ کر فروخت کرنے والوں کا فرنیچر ودیگر سامان تحویل میں لے لیا،بلدیہ عملے نے کاروائی اسسٹنٹ کمشنر لطیف آباد جاوید شاہ کی سرکردگی میں کی،جبکہ کاروائی کے دوران کئی بااثردکانداروں اورسڑک پرقابضین افراد کو مہلت دینے پر آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی جانب سے شدید مزاحمت کرتے ہوئے آپریشن کے دوران غریب افراد سے امتیازی سلوک برتنے کے الزامات لگائے ،جبکہ کئی افراد کو مزاحمت کرنے پر پولیس نے حراست میں لینے کے بعد شخصی ضماتنوں پر رہاکردیا،سندھ ہائی کورٹ اورجوڈیشنل واٹرکمیشن نے کمشنر حیدرآباد ودیگرافسران کو تمام غیرقانونی تجاوزات ختم کرنے اورسرکاری اراضی ،فٹ پاتھ،گرین بیلٹس اورسڑکیں قابضین سے واہ گزار کرنے کے احکامات دئیے تھے مگر بلدیہ عملے کی جانب سے کاروائیاں دکانوں کے باہررکھے سامان اورٹھیلوں پتھاروں تک محدود کردی گئی ہے ،لطیف آباد کے علاقے میں درجنوں شادی ہالز مالکان،ریسٹورنٹ ،،سپرمارٹ انتظامیہ کی جانب سے گرین بیلٹس ،سرکاری اراضی اورسڑکوں پر چاردیواریاں تعمیر کرکے قبضے اورسڑکوں پر بڑے جنیٹر رکھے ہوئے ہیں مگر اینٹی انکروچمنٹ سیل کی جانب سے ان غیرقانونی قبضوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاری ہے ،شہریوں نے انسدادتجاوزات آپریشن کے دوران امتیازی سلوک برتنے اوربااثرافراد کی غیرقانونی تجاوزات کو تحفظ فراہم کرنے پر وزیراعلی سندھ سید مرادعلی شاہ ،کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ ،ڈپٹی کمشنر سیداعجازعلی شاہ سے نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے منصفانہ کاروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔
حیدرآباد میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے میں پولیس ناکام
حیدرآباد(بیورو رپورٹ)حیدرآباد میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے میں پولیس ناکام ،ناجائز تجاوزات ، غلط پارکنگ ، رانگ سائیڈ ٹریفک نے صورتحال گھمبیر بنادی ،شہر کی مصروف سڑکوں پر کئی کئی ٹریفک جام رہتا ہے،مریضو ں کا اسپتال لے جانا اور اسکولوں کے بچوں کو شدید دشواری کا سامنا ، حیدرآباد شہر گذشتہ کئی سال سے ٹریفک کی بدانتظامی سے دوچار ہے اسکا ایک سبب تو آبادی اور گاڑیوں میں غیر معمولی اضافہ ہے ان میں کاریں اور موٹرسائیکلیں تو ہزاروں کی تعداد میں ہو گئی ہیں حیدرآباد میں گذشتہ30سال پبلک ٹرانسپورٹ ختم کردی گئی ہے پہلے یہاں ایس آر ٹی سی کی بسیں اور ڈبل بسیں چلتی تھیں یا پھر رکشہ و منی ٹیکسی اور تانگہ تھے لیکن تانگہ بھی بند ہیں منی ٹیکسی ایک آدھ چھوٹے روٹ پر چلتی ہے رکشہ ہیں لیکن ان کے کرایہ بہت زیاد ہ ہیں اس لیے عوام نے اپنی حیثیت کے مطابق موٹرسائیکلیں اور کاریں لے لی ہیں بڑھتی آبادی کے بعد سڑکیں کشادہ ہونا چاہئیں تھیں وہ تو بوجود نہیں ہوسکتی تھیں لیکن ستم یہ ہے کہ جو سڑکیں ان پر ناجائز تجاوزات قائم ہیں فٹ پاتھ پر مکمل قبضہ ہے پھر سڑک پر بھی پارکنگ بنادی گئی ہے جس پر بااثر گروہ پارکنگ فیس وصول کرتے ہیں جن کے پاس اتھارٹی لیٹر ہے نہ مصدقہ رسیدیں ہیں اب ٹریفک پولیس نے غلط پارکنگ، رانگ سائیڈ،ہیلمٹ نہ پہننے،کاغذات نہ رکھنے اور دیگر وجوہات پر چالان شروع کردیئے ہیں ٹریفک پولیس یومیہ ایک لاکھ روپے سے زائد چالان کی مد میں وصول کررہی ہے لیکن اس کے باوجود ٹریفک کسی ضابطہ میں نہیں آرہا ہے شہر کی اہم شاہراہوں پر گھنٹوں ٹریفک جام معمول بن گیا ہے جس سے مریضوں کو اسپتال لے جاتے اور اسکولوں سے بچوں کو لانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کئی اسکول وین اور دیگر گاڑیوں میں ٹریفک جام اور گھروں کو جانے میں تاخیر سے بچے روتے ہو ئے دیکھے گئے ہیں دوسری جانب گاڑیوں کے اژدھام سے سیکورٹی کے مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں اس صورتحال پر جب ہم نے حیدرآباد میں ٹریفک پولیس کے انچارج ڈی ایس پی احمد قریشی سے بات کی تو انہوں نے اے پی پی کو بتایا کہ ٹریفک جام ہو نے میں ناجائز تجاوزات اور غلط پارکنگ سب سے زیادہ روکاوٹ ہے دوسری جانب ہمارے پاس پولیس نفری کی بھی کمی ہے ہمیں کم از کم 650پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہے یہ نفری منظور بھی ہو گئی ہے لیکن ہمارے پاس کل250پولیس اہلکار و آفیسرز ہیں ہم نے حیدرآباد میں 10سیکشن میں تقسیم کرکے کسی حد تک ٹریفک کے مسائل پر قابو پایا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ہے اس میں شہریوں کا تعاون بھی چاہیئے و ٹریفک قوانین کا احترام کریں غلط پارکنگ ، رانگ سائیڈ آنے جانے سے گریز کریں تو خاصی حد تک مسئلہ حل ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ آباد ی بڑھنے کے بعد سڑکیں بازار بن گئے ہیں وہاں خرید اروں کا ہجوم رہتا ہے اس صورتحال میں کیا کیا جائے ایک جامع منصوبہ اور عوام کے مکمل تعاون کی ضرورت ہے
آج پھر جمہوریت کو مذاق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے عبدالجبار خان
حیدرآباد(بیورو رپورٹ)پاکستان پیپلزپارٹی کے رُکن صوبائی اسمبلی عبدالجبار خان نے کہا ہے کہ آج پھر جمہوریت کو مذاق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومت کے انتقام کے نشانے پر ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے بجائے سیاسی تخریبی عمل شروع کردیا گیا ہے۔ جس سے ملک کے معاملات اور زیادہ خراب ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کی حکومت بلند وبانگ دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آئی لیکن 100 روز کی کارکردگی اس قدر مایوس کن ہے کہ عام شخص غیر یقینی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ معیشت کا برا حال ہے، روزگار اور کاروبار غیر یقینی سے دوچار ہے۔ تاجر ، صنعتکار ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں جبکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام پیپلزپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں جو برسراقتدار آکر غریب عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دیتی ہے ، نوجوانوں کیلئے تربیتی پروگرام شروع کئے جاتے ہیں ، غریب اور نادار افراد کیلئے وظیفے دیئے جاتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت ان تمام کاموں کے بجائے روزمرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگاکر لوگوں کو ان سے دو وقت کی روٹی بھی چھین رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مصنوعی اعدادوشمار پیش کرنے کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے عملی کام کیا جائے۔