تحریر۔۔۔ڈاکٹر فیاض احمد
دنیا کے اے مسافر ، منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے
قدرت کے کارخانے کا ایک عجب اصول ہے کہ اس میں بننے والی ہر چیز کی ایک مدت ہوتی ہے بالکل اسی طرح اس دنیا میں ہر چیز فانی ہے جو بھی تخلیق ہوا اس کو فنا ہونا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے یعنی ہم سب کو واپس لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے اس کی مثال جس طرح کسی بھی فیکٹری میں بننے والی چیز کی ایک مدت استعمال ہوتی ہے جس کے بعد اس کا استعمال ممنوع قرار دیا جاتا ہے یعنی یہ چیز استعمال کے قابل نہیں رہتی اس کے استعمال سے جان کو خطرہ ہوتا ہے
جب سے بنی ہے دنیا ، لاکھوں کروڑوں آئے ۔۔۔باقی رہا نہ کوئی ، مٹی میں سب سمائے
اس بات کو نہ بھولو سب کا یہی حشر ہے ۔۔۔دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
آجکل ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی کا دور دورہ ہے ہر انسان دوسرے انسان سے آگے نکلنے کی کوشش میں گامزن ہے جس کی بدولت ہم آخرت کو بھول گئے ہیں ہمارا مقصد صرف اور صرف دنیا ہی ہے ہمارے اندر لالچ، اناپرستی ، احساس کمتری جیسے عناصر موجود ہیں جو ہمیں اندر سے کھوکھلا کررہیں ہیں جس کی وجہ سے ہم میں خوف خدا بالکل ختم ہو گیا ہے اور ہم میں رشتوں کا احساس تک ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہم دنیا سے محبت کرتے ہیں اور آخرت کی سچائی بھول گئے ہیں یعنی ہمیں اپنی قبر یاد نہیں ہے اسی لئے ہم دنیا سے پیار کرتے ہیں اس وقت ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی بڑا مسئلہ جائیداد کا مسئلہ ہے جو گھروں کی خوشیوں کو کھا جاتا ہے ہمارے گھروں میں ہم جائیداد کی وجہ سے ایک دوسرے کے اتنے دشمن ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی خوشی یا غم میں بھی شریک نہیں ہوتے بھائی بھائی کا دشمن ہو جاتا ہے ایک پل کے لئے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والے اس جائیداد کی وجہ سے ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے گھروں کے اندر بڑی بڑی دیواریں ہو جاتی ہیں کیونکہ ہمارے ذہنوں میں ایک ہی بات نقش ہے کہ ہم اس دنیا میں ساری زندگی گزارنی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو بھول گئے ہیں کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اس دنیا میں کتنے عظیم لوگ آئے ساری دنیا پر حکومت کی اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اس دنیا سے خالی ہاتھ لوٹ گئے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں لیکن ہمارے اندر اس بات کا احساس ختم ہو گیا ہے کہ ہم اس دنیا میں عارضی طور پر آئے ہیں بلکہ اس کے برعکس ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ دنیا ہمیشہ کے لئے ہے اور ہم نے اس میں ہمیشہ رہنا ہے اور یہ زندگی مستقل ہے
یہ عالی شان بنگلے وہاں کام کے نہیں ہیں ۔۔۔مخمل پہ سونے والے مٹی میں سو رہے ہیں
دو گز زمین کا ٹکڑا چھوٹا سا تیرا گھر ہے ۔۔۔دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
ہم نے دیکھا ہے کہ جب کوئی انسان مرتا ہے تو چائے وہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو اس کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں اس کو جب قبرستان لے کر جایا جاتا ہے تو اس وقت ہمارے اندر ایک خوف طاری ہو جاتا ہے جس کو خوف خدا کہتے ہیں اس وقت ہم سوچتے ہیں کہ اب ہم سب کچھ چھوڑ کر اپنے آپ کو اس قابل بنائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو پسند آجائیں اور اپنی آخرت کی تیاری کریں لیکن جونہی ہم واپس آتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اس دنیا فانی میں مشغول ہو جاتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر انسان کا رزق میرے ذمہ ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ سب باتیں بھول جاتے ہیں اور دنیاوی کاموں میں اپنا ٹائم ضائع کردیتے ہیں ہم سب کے لئے ایک ہی قبر ہوتی ہے چاہے وہ کوئی بادشاہ ہو یا کوئی گدہ ہو سب خالی ہاتھ اس دنیا کو چھوڑ کر جائیں اس وجہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ بھول گئے ہیں اور ہمیں صرف اور صرف دنیاوی فکر لگی ہوئی ہے اے انسان چھوڑ اس دنیاء فانی کا غم اور فکر کر اپنی آخرت کی یہ دنیا ایک بازار ہے جو عنقریب بند ہو جائے گا عقل مند وہ ہے جو اس بازار سے اپنے اصل گھر کے لئے کچھ اکٹھا کرلے اللہ رب العزت ہم سب کو آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین