تحریر۔۔۔ میر افسر امان
پاکستان کو کرپشن فری ہونا چاہیے۔ اس بات پرپوراپاکستان متفق ہے۔ مگر ایسے کیسے ہو۔ یہ مشکل کام تھا۔ احتساب کا ادارہ نیب ڈکٹیٹر مشرف کے دور حکمرانی میں بنا۔ اُس نے سیاست دانوں کو ڈرا کر ڈکٹیٹر ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ بنائی۔ ڈکٹیٹر ایوب کی طرح ڈکٹیٹر مشرف بھی ذلیل ہو کر حکومت سے حکومت سے بے دخل ہوا۔ نیب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی کام کرتا رہا۔ مگر دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت سے کرپشن کو نہیں پکڑا گیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد کرپشن فری پارٹی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان میں کرپشن فری مہم چلاتی رہی ۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے نواز اور زردزری، دونوں کی کرپشن کے خلاف آواز اُٹھائی ۔ اللہ کا کرنا کہ اس دوران آف شور کمپنیاں سامنے آئیں جس میں نواز شریف کے خاندان کا نام آیا۔ کرپشن کے خلاف تحریک نے زور پکڑا۔ نواز شریف پر اپوزیشن نے دباؤ بڑھایا۔ نواز شریف نے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا پر تقریر اور ایک دفعہ پارلیمنٹ میں اسپیکر کو خطاب کر کے کہا کہ جناب یہ وہ ثبوت جن کی ذریعے میرے خاندان نے اثاثے بنائے۔نواز شریف نے سپریم کورٹ کو خود خط لکھا کہ یوڈیشنل کمیشن بنا کر کرپشن کا کیس سنا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔اس دوران جماعت اسلامی،
عوامی مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے نواز شریف کی کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس سنا اور بلا آخرنواز شریف کو ۶۲۔۶۳ پرپورا نہ اُترنے پر ہمیشہ کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔۲۰۱۸ء کے عام قومی ا لیکشن میں عمران خان کی تحریک انصاف کرپشن فری پاکستان کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔نیب پرانے دور کے میگا کرپشن مقدموں کو سن رہا ہے ۔ جس میں نواز شریف اورزرداری اس کی زد میں ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی پاکستان میں ایک عرصہ سے حکومتیں کر رہی تھی۔نواز اور زرداری نے کھل کر کرپشن کی ۔دونوں نے پاکستان کے سارے اداروں میں اپنی اپنی مرضی کے لوگوں کو لگایا۔ یہ لوگ دونوں کی کرپشن پرچپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ بلکہ کرپشن کے ثبوت اورنام و نشان کو مٹانے میں لگے رہے۔ کہیں ریکارڈ جلا دیا اور کہیں چھپا دیا۔ نیب نے زرداری کے کرپشن کے مقدمے یہ کہہ کر دفتر داخل کر دیے تھے کہ فوٹو اسٹیٹ ریکارڈ پر مقدمے نہیں چل سکتے۔ اس طرح نوازشریف کی کرپشن کی جب پارلیمنٹ کی پبلک کیمٹی نے پوچھ گوچھ کی گئی تو کرپشن پکڑنے والے اداروں کے سربراہ پہلے تو پیش ہونے سے کتراتے رہے۔ جب کمیٹی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سختی کی تو پیش ہوئے ۔ معلوم کرنے پر کہ آپ نے کرپشن کیوں نہیں پکڑی تو صاف صاف معذوری ظاہر کر دی۔ سپریم کورٹ میں جاری کرپشن کے مقدمے میں معزز جج صاحبان نے بھی ریماکس دیے کہ کرپشن پکڑنے والے ادروں نے کرپشن نہیں پکڑی۔
بحر حال سپریم کورٹ کے حکم پر نیب عدالت نے سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے مقدمے کو سنا اور اب دوبارا فیصلہ سنایا۔ نواز شریف کو فلیگ شب انوسٹمنٹ میں ریفرنس میں بری کر دیا اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید اور پانچ ارب روپے جرمانہ، جائیداد ضبطی کی سزا سنا دی۔ ان کے بیٹے حسن نواز اورحسین نواز کے دائمی ورانٹ گرفتاری بھی جاری کیے۔سابق وزیر اعظم کو دس سال کے لیے عوامی عہدے کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیے گئے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ نواز شریف منی ٹریل نہیں دے سکے۔ فیصلہ کے بعد انہیں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل روالپنڈی میں قید کر دیا گیا۔ ان کی درخواست پر دوسرے دن کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیے گئے۔
جہاں تک زرداری کا تعلق ہے ۔ تو عرض گزارش ہے کہ ظالم اور کرپٹ سیاست دان جو اقتدارمیں بھی ہیں پاکستان کو لوٹ کر کنگھال کر دیا۔کرپشن کا پیسالانچوں میں بھر بھرکر باہر منتقل کیا۔ کسی کے گھر کی پانی کی ٹنکی میں سے لوٹا ہوا پیسا بر آمند ہوا۔ کہیں ماڈل گرل کے ذیعے کرپشن کا پیسا باہر منتقل کیا۔ گم نامی اکاؤٹ غریب لوگوں کے نام کھلوائے۔ ان اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستان کی عوام مظلوم کی خون پسنے کی کمائی کو لوٹ کر پاکستان سے باہر منتقل کی۔ اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، جے آئی ٹی بنائی۔ جے آئی ٹی نے سابق زرداری اور اومنی گرپ کو ذمہ دار ٹھرایا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ان کی جادائدیں ضبط کرنے کا حکم سنایا۔زرداری کو کو نوٹس جاری کر دیا گیا۔ ایف آئی اے نے تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کر دی۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے تھا۔ اب پراسکیوشن نہیں اِن کو خود ثابت کرنا پڑے کرنا ہو گا۔ پہلے قوم کا پیساکھایا او اب بدمعاشی کر رہے ہیں۔
صاحبو! یہ داستان ہے ۳۵سال سے حکومت کرنے والے سیاستدانوں کی۔ عمران خان نے کرپشن فری نئے پاکستان کے ایجنڈے پر ۲۰۱۸ء کا الیکشن جیتا ہے۔ اس پر
سختی سے عمل کر کے پاکستان کو کرپشن فری بنانے کے اپنے ایجنڈے کو مکمل کرے۔ اگر اس دور میں بھی پاکستان کرپشن فری نہ ہوا تو پھر کبھی بھی نہیں ہو سکے گا۔ نواز شریف اور اب زرداری کی گیڈر بھپکیوں بھی عوام کے سامنے دم توڑ جائیں گی۔لیکن احتساب سب کا ہونا چاہیے۔۔نیب کے سربراہ کا بیان کی کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ دھمکیوں سے نیب کو خاموش نہیں کرایا جا سکتا خوش آئندہے۔ جماعت اسلامی نے ۴۳۶ آف شور کمنیوں والوں کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ قائم کیا ہوا ہے۔ اس کی بھی کاروائی شروع ہونی چاہیے۔ نیب کو چاہیے کہ جس نے بھی کرپشن کی ہے، پاکستان کے آئین کے مطابق اس پر مقدمے قائم کیا جائیں ۔ لوٹا ہواپیسا واپس پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کریں بیرونی قرضے ادا کریں۔ اسی میں عمران خان کے نئے پاکستان کی ترقی کاراز پنہاں ہے۔