چودہ فروری بس ایک عام سی تاریح تھی ،چند سال پہلے تک آتی تھی اور گزرجاتی تھی نہ کسی کو انتظار ہوتا اور نہ یہ کوئی تہوار تھا۔ پاکستان میں بے شماراخبارات بھی تھے اور رسالے اور میگزین بھی ، ریڈیواور ٹیلی ویڑن بھی لیکن قوم کی مذہبی اقدار اور معا شرتی روایات کا جو بیڑا پچھلے دس سال میں غرق کیا گیا ہے اس کی مثال تاریح میں ملنی مشکل ہے اور اس کے لیے جو ایک بھو نڈی دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ اس دور میں بین الاقوامی اثرات سے بچنا مشکل ہے اسی غیر معقول توجیہہ کو معقولہ بنا کر ہمارے میڈیا نے دنیا میں ہونے والی بے شمار بیہودگیوں کو ہمارے معا شرے کا حصہ بنا دیا ہے۔میرے خیال میں ہماری ثقافتی بلکہ مذہبی روایات پر اب تک سب سے بڑا حملہ ویلنٹا ئن ڈے ہے۔ میں یہاں سینٹ ویلنٹا ئن اور اس کے معشوقے کی کہانی نہیں دہراؤں گی اور نہ ہی لیلٰی مجنون اور سوہنی مہیوال کی کہانی سے اس کا ربط ہونے یا نا ہونے پر بحث کروں گی کیونکہ یہ سب جان چکے ہیں لیکن مجھے وہ بیج نظرآرہاہے جو آج کے معاشرے میں بو یا جا رہاہے اور بڑی تندہی سے اس کی آبیاری کی جارہی ہے۔ نجی میڈیا نے جہا ں سیاسی طور پر کچھ مثبت کردار اداکیا ہے اور حکمرانوں کے اصلی چہرے عوام کو دکھائے ہیں وہی اس نے ایسی معاشرتی برائیو ں کو کبھی جنم دیا ہے اور کبھی انہیں رنگ وروغن لگا کر ملمع سازی کرکے مقبول بنا یا ہے کہ اب معا شرہ ان سے جان نہیں چھڑاپا رہا۔ اسی میڈیا نے پاکستان کے باحیا قومی لباس کی بجائے مغرب کے اْس لباس کو جگہ دی جس نے عورت کو اس دائرے سے ہی نکال دیا ہے جس میں اسلام اس کو دیکھنا چاہتاہے۔ قمیض شلوار اگر کہیں ہے تو اسے دو پٹے کے بند سے ہی آزاد کر دیا ہے اور لاکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا اوراس پر طّرہ وہ روایا ت ہیں جو ہماری نہیں اور نہ ہو سکتی ہیں انہیں مرّوج کیا۔ اسلام حیا کو نصف ایمان کہتا ہے، عورت اور مرد کو اپنے اپنے دائرے میں رکھتا ہے ،ان کی آپس کی محبت کو پاکیزہ اور باحیا دیکھنا چاہتا ہے اورنکاح کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاسکے۔ یہا ں تک کہ ماں باپ کی اپنے بچوں سے اور بہن اور بھائی کے درمیان بلکہ بھائی کی بھائی اور بہن کی بہن سے بھی حیا ہے پھر وہ یوں غیر مرد اور عورت کے آپس میں برملا اظہارِ محبت کو کیسے پسند کر سکتا ہے جس کا درس ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دیا جا رہا ہے صرف دوستی کے نام پر۔ اور یہ کہنا کہ یہ دن تمام رشتوں سے محبت جتانے کا دن ہے تو اسکے لئے ٹی وی کا سکرین استعمال کرنے کی کونسی تْک ہے اور اس پرمجھے اپنے شوہر سے پیار ہے اور مجھے اپنی بیوی سے محبت ہے جیسے جملے آخر کونسے مذہب اور تہذیب کی عکاسی ہے اور کیا محبت کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کی بھی کوئی منطق ہے۔کیا اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ محبت کے لیے ایک دن مخصوص کیا ہے یا بچوں سے محبت کے لیے چودہ فروری کی تاریح کو فرض قرار دیاہے۔ جس طرح سارے بازاروں کو لال رنگ میں ڈبودیا جاتا ہے کیا یہ طریقہ ہماری ثقافت، معاشرت اور مذہب کا عکاس ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جس انداز کے مو بائل میسجز ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں کیاہمارا معاشرہ ان کی اجازت دیتا ہے اور کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں اس دن جو ہوتا ہے اس پر ہمارے ہر دم باخبر الیکڑانک میڈیا نے غور کرنے کی کوشش کی ہے جو اس دن سْرخ دلوں سے سٹیج سجاکر اس کی ترویج کرتا ہے اگر انہیں کبھی اسکی فرصت نہ ملی ہو تو میرے جیسے کچھ اساتذہ سے دریا فت کرلے۔اے لیول کے ایک حساس طالبعلم نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا کبھی میرے سکول آکر دیکھیئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی لڑکیاں کیسالباس پہنتی ہیں اور لڑکے اور لڑکیاں سبزہ زاروں اور بنچوں پر بیٹھ کر کیا گفتگوکرتے ہیں۔ غیروں کی روایات کو اپنے ملک میں یوں بغیر سوچے سمجھے را ئج کرنے سے پہلے ان پر غور کرنا ضروری ہے ا وریہ بھی کہ کیا ہمارا مذہب اس کی اجازت دے رہاہے اور یہ بھی نکتہ قابل غور ہے کہ کیا ہمارے معاشرتی اور علاقائی تہواروں کو بھی مغرب نے کبھی اس طمطراق سے منایاہے جو ہم کر رہے ہیں جیسا کہ ہمارے نجی میڈیا نے اپنے اپنے چینل کو زیادہ روشن خیال اور وسیع النظرثابت کرنے کے لیے اس فضول روایت کو پروموٹ کیا اور کررہاہے اِسے ان کا ایک جْرم ہی تصور کیا جانا چاہئے۔ سوچیئے کیا اس دن کے پیغامات کے بعد اگلا قدم یہ نہ ہو گاکہ خدانخواستہ وہ تمام مناظر جو یورپ کے پارکوں میں نظر آتے ہیں ہمارے ہاں نظر نہ آئیں گے۔ ایک سوال میرا یہ بھی ہے کہ آج سے چند سال پہلے جب پاکستان میں نجی میڈیا نہ تھا اور سینٹ ویلنٹائن کو بھی یہ عزت و توقیر نہیں بحشی گئی تھی تو کیا لوگ ایک دوسرے سے محبت نہ کرتے تھے سچ تو یہ ہے کہ نفرت اور دہشت گردی اسی نام نہاد روشن خیالی کے بعدبڑھی ہے۔ میڈیا سے میری درخواست ہے کہ اپنی قوم پر رحم کیجئے اسلام میں اور اپنے معاشرے میں اتنی ملاٹ مت کیجئے کہ آنے والی نسلیں آپ کو اپنے مجرم کے طور پر یاد کریں۔