اخلاقی بحران

Published on January 13, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 398)      No Comments

تحریر۔۔۔ اللہ دتہ
یہ ایک پختہ حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو کر ہماری زندگی کاحصہ بن چکاہے،امانت،دیانت،صداقت، عدل و انصاف ، عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اقداردن بہ دن کمزورپڑتی جارہی ہیں،کرپشن،بدعنوانیاں ا وردیگربیماریاں ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہیں، ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے،لوگ فکرِانسانیت سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات اور ان جیسے دیگر منفی رویوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں، یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص افسوس کرتا ہوا بھی نظر آتا ہے،اس صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لے کر ان عناصر کی نشان دہی کی جائے جو ہمارے اجتماعی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم نے اپنی اصلاح کی کوشش نہ کی تو اس کے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں،انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے کوئی غلط راستہ اختیارنہ کرے تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے، ایسے انسان کی مثال اس جانور کی سی ہے جو ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے، ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے ادنیٰ جذبے آہستہ آہستہ ان پرغالب آجاتے ہیں،جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہوجا تی ہے،اب ہر شخص کا ذہن کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ملک سے رشوت و بدعنوانی ختم ہوجائے۔ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا میرے لیے رشوت لینا جائز ہے،سب لوگوں کو ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے، مگر جب تک ایسانہیں ہوتا مجھے قانون کی خلاف ورزی کا حق ہے۔ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے، مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا تو میں اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حد توڑ سکتا ہوں،لوگوں نے دیکھا کہ حکمران اورصاحب اختیار طبقات کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں توہم نے بھی، جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا، بلکہ غسل کرنا ضروری سمجھا، ہمیں کہیں انصاف نہ ملا توہم نے دوسروں پرظلم کرنے کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا،اب یہی سوچ کر ایک کلرک اور کانسٹیبل رشوت لیتا ہے کہ اسے تنخواہ کم مل رہی ہے،یہی سوچ کر ایک دکان دار ملاوٹ کرتا اور کم تولتا ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا، اسی فکر کے پیش نظر ایک غریب دوسرے غریب کا حق اسی طرح مارتا ہے جس طرح کوئی طاقتورکسی کمزورکے ساتھ کرتا ہے،لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت کے ظلم کا رونا روتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں کے حقوق پامال کرتے جاتے ہیں، تیز رفتار گاڑی چلاکر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیور، کھلے عام رشوت لینے والا ٹریفک کا سپاہی، بدعنوان سرکاری اہلکار، بددیانت تاجر اور ان جیسے دیگر جیتے جاگتے کرداردیکھنے کو عام ملتے ہیں،یہ فوج اور سیاست دانوں کی کرپشن کا گلہ بھی کرتے ہیں، مگر اپنے دائرہ اختیار میں یہ سب اتنے ہی بڑے ظالم ثابت ہوتے ہیں،اس ظلم کے خلاف اپنے اندر سے جوآواز اٹھتی ہے، اسے دبانے کے لیے وہ اسی منفی سوچ کا سہارا لیتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ننگے ہوچکے ہیں، ہمارے لیے بھی اخلاقیات کا لباس اتارے بغیر کوئی چارہ نہیں،اس رویے کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ظلم و بدعنوانی جس کا الزام اشرافیہ اور غیر ملکی طاقتوں پر عائد کیا جارہا تھا، اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی، البتہ ایک عام آدمی کی زندگی اسی جیسے عام آدمی نے جہنم بنادی ہے،اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ سوسائٹی میں پھیلی بد اخلاقی، ظلم اور بدعنوانی کا شکار ہونے والے اکثر لوگ کسی بڑے آدمی کے نہیں، بلکہ اپنے ہی جیسے عام آدمیوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں،یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اپنی جواب دہی کے بجائے دوسروں کی جواب دہی کویا د رکھا جاتا ہے ہے،جس میں اپنے دائرے کے بجائے دوسروں کے دائرہ اختیار پر زور ہوتاہے۔ جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے۔حالانکہ دین نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں، وہ بالکل برعکس ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا
’’اے ایمان والو! تم پر اپنی جان کی فکر لازم ہے، تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی گمراہ ہو جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتلا دے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔‘‘(المائدہ۵: ۵۰۱)۔
ہماری زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار اور قربانی سے جنم لیتا ہے،جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے، اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرنے والے اور ایثار و قربانی کرنے والے لوگ اکثریت میں رہتے ہیں،جب اخلاقی حس مردہ ہونے لگے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلے معاشرہ کمزور اور پھر تباہ ہوجاتا ہے،مگر یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے افراد ہیں، یہ صورت حال اگر پیدا ہورہی ہے تو ہم اس پر صرف اظہار افسوس کرکے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے،یہ ہماری، مذہبی، قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور کم از کم اپنے دائرے میں غلط رویوں کے خلاف ایک جدو جہد شروع کریں اور اس معاملے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناًہمیں بدترین تباہی کا سامناکرنا پڑے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes