تحریر: روشن خٹک
بے شک یہ دنیا فانی ہے اور ہر کسی نے یہاں سے رخصت ہو جانا ہے مگر کچھ لوگ اپنے نیک کاموں کی وجہ سے ہمیشہ زند رہتے ہیں۔ان میں ایک نام حکیم محمد سعید (شہیدِ پاکستان) کا بھی ہے۔وہ نہ صرف یہ کہ ایک معروف اور مایہ ناز حکیم تھے بلکہ وطنِ عزیز بلکہ پوری اسلامی دنیا کیلئے خدمتِ انسانی کا روشن مینار تھے ۔ہمدرد پاکستان، ہمدرد یونیورسٹی،نو نہال اسمبلی اور شوریٰ ہمدرد جیسے سینکڑوں نیک کام ان ہی کے مرہونِ منّت ہیں۔نونہال اسمبلی اور شوریٰ ہمدرد کے اجلاس ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کے چار بڑے شہروں میں ان کی دختر نیک اختر محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کے زیرِ نگرانی منعقد ہو تے رہتے ہیں اور ہر ماہ ارکانِ شوریٰ کے سامنے ایسا عنوان رکھا جاتا ہے جو قومی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔جس میں اس قومی مسئلہ پر نہ صرف یہ کہ سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے بلکہ اس کا ممکنہ حل بھی سامنے لائے جاتے ہیں ۔اس مرتبہ پشاور میں گزشتہ روز شوریٰ ہمدرد کا اجلاس منعقد ہوا ۔اجلاس میں بحث کے لئے جو موضوع رکھا گیا تھا اس کا عنوان تھا ’’ عوام الناس میں شعورِ شہریت کی کمی ‘‘ شعورِ شہریت سے مراد سماجی اخلاقیات ہے،جس کا مطلب ہے کہ ہر انسان سڑکوں،گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر ایسی کو ئی بھی حرکت نہ کرے جس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچے۔‘‘ واضح رہے کہ پشاور میں شوریٰ ہمدرد کے اراکین کا شمار دانشوروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ شوریٰ کے اسپیکر جناب ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کو علم کا سمندرکہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ہمدردکے محمد اسلم خان صاحب اور عبد الجبار خان کا حسنِ انتظام شوریٰ اجلاس کو حسین تر اور مفیدتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مقامی ایک ایک خوبصورت ہال میں اجلاس شروع ہوا تو اراکینِ شوریٰ نے وطنِ عزیز میں شعورِ شہریت کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں شعورِ شہریت کی کمی باعثِ شرم بنتی جا رہی ہے ، گھر سے نکلیں تو گلی محلہ میں پھینکا گیا کوڑا کرکٹ سڑک پر ٹریفک کی خلاف ورزیاں، فٹ پاتوں پر تھوکنا، عوامی مقامات پر ہی پیشاب کرنا اور اس قسم کے دیگر ناگوار طرزِ عمل ہمارے ہاں ایک عام عادت بن گئی ہے جس کی بڑی وجہ شعورِ شہریت کی کمی ہے ۔کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور ہر محفل اور ہر مجلس میں ہم اپنے مذہبی عقائد پر فخر کرتے ہیں ۔اکثریت ایسی بھی ہے جو اپن آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے پر بغلیں بجاتے ہیں مگر نئی نویلی کرولا یا ہونڈا کار میں سفر کرتے ہوئے کینو،مالٹے کے چھلکے سڑک پر ہی پھینک دیتے ہیں ۔اس قسم کے شعورِ شہریت کی خلاف درزی کرتے ہوئے ہم اپنے مذہبی تعلیمات کا تمسخر اڑانے کا باعث بنتے ہیں ۔مہذب قومیں ان باتوں کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔ وہاں کوئی شخص دوسرے انسانوں کے لئے باعثِ ایذا نہیں بنتا۔وہاں شعورِ شہریت اتنا مستحکم ہے کہ ہمارے ہاں جو ناگوار حرکتیں قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں وہاں ایسی حرکتیں انتہائی ناقابلِ برداشت اور ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کسی کو ایسی ناگوار حرکتیں کرنے کی جرائت نہیں ہوتی۔مگر ہم ایسی حرکتوں کی وجہ سے پسماندہ ترین قوموں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ارکانِ شوریٰ نے وطنِ عزیز میں شہری شعور اجاگر کرنے کے مختلف تجاویز پیش کیں مگر ان میں دو تجاویز ایسی ہیں جسکا ذکر کرنا مناسب ہو گا۔پہلی تجویز یہ تھی کہ میڈیا اور تعلیمی اداروں میں مسلسل ذہن سازی کے ذریعے کو بیدار کیا جائے۔نصاب میں شہری شعور بیدار کرنے کے لئے اسباق شامل کئے جائیں کیونکہ نصاب ذہن سازی کا ایک مو ثر ذریعہ ہے۔امام حضرات مساجد میں اپنے تقاریر میں شعورِ شہریت پر زور دیں ،سیمینار اور ایسے مجالس منعقد کئے جائیں جس میں عوامی سماجی شعور پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے ۔والدین گھروں میں بچوں کو ابتدا سے ہی سے شہری شعور پر عمل پیرا ہونے کا عادی بنائے اور بچوں کو ہاتھ میں موبائل دینے کی بجاے شعورِ شہریت دینے کا اہتمام کریں۔ارکانِ شوریٰ کی طرف سے دوسری اہم تجویز یہ تھی کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ لوگوں میں شعورِ شہریت کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے خوف کا سامناکرنا پڑے اور جو کوئی غلط حرکت کرے، اس کو سزا مِلے۔ کیونکہ خوف انسانی نفسیات کا ایک اہم جز ہے ۔اس کے بغیر معاشرے کا سدھار ممکن نہیں ۔مشاہدے میں یہ بات عام طور پر سامن آئی ہے کہ جہاں غلط کام کی سزا دی جاتی ہے وہاں انسان سزا سے بچنے کے لئے قانون پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ،جس کی ایک ادنیٰ مثال موٹر وے پر ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہونے کی ہے لہذا قانون سازی اور اس کا عملی نفاذ ہی شعورِ شہریت پر عمل پیرا ہونے کا بہترین حل ہے۔