لاہور: (یواین پی) سانحہ ساہیوال میں ملوث اہلکاروں کے نام منظر عام پر آ گئے۔ یہ آپریشن سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر صفدر حسین کی قیادت میں کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق دیگر اہلکاروں میں احسن خان، محمد رمضان، سیف اللہ اور حسنین اکبر شامل ہیں۔ ساہیوال آپریشن کا ایک مقدمہ سب انسپکٹر صفدر حسین کی مدعیت میں بھی درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، ناجائز اسلحہ رکھنے اور ایکسپلوژو ایکٹ کی دفعات درج کی گئی ہیں۔یاد رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر اڈا قادر آباد کے قریب پنجاب کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی) نے مشکوک مقابلے میں ایک بچی، اس کے ما ں باپ اور کار ڈرائیور کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔جاں بحق ہونیوالوں کے اہلخانہ نے بتایا کہ واقعے میں ہلاک خلیل احمد کا لاہور کے علاقے چونگی امرسدھو میں جنرل سٹور تھا۔ وہ اپنی بیوی، 3 بیٹیوں، ایک بیٹے اور دوست ذیشان کے ساتھ شادی میں شر کت کیلئے بورے والا جا رہا تھا کہ ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب یہ واقعہ پیش آیا۔پنجاب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے خلیل، اس کی اہلیہ نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اریبہ اور ذیشان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ فائرنگ سے 10 سالہ عمر خلیل، 7 سالہ بچی منیبہ اور 5 سالہ بچی ہادیہ کو بھی زخم آئے۔واقعے کے بعد بغیر نمبر پلیٹ کی ایلیٹ فورس کی موبائل زندہ بچ جانے والے بچوں کو پہلے ساتھ لے گئی، پھر پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، کچھ دیر بعد واپس آ کر تینوں بچوں کو ہسپتال پہنچایا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے گاڑی کو روکا اور فائرنگ کر دی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ڈی سی ساہیوال نے بھی تصدیق کی کہ کار سواروں نے کو ئی مزاحمت نہیں کی۔ عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ گاڑی میں کپڑوں سے بھرے 3 بیگز بھی موجود تھے جنہیں پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔زخمی بچے عمر خلیل نے میڈیا کو بتایا کہ وہ گاڑی میں سوار ہو کر چچا کی شادی میں شرکت کے لیے بورے والا گاؤں جا رہے تھے۔ اس کے والد نے پولیس والوں سے کہا کہ پیسے لے لو، ہمیں معاف کر دو لیکن انہوں نے فائرنگ کر دی۔محلے داروں نے بتایا کہ وہ مقتولین کے اہلخانہ کو تقریباً 30 سال سے جانتے ہیں، یہ لوگ نمازی اور پرہیز گار تھے۔ محلے داروں کے مطابق ذیشان کا ایک بھائی احتشام ڈولفن پولیس کا اہلکار ہے۔