تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
موجودہ دور میں محبت کے مطلب سے لوگ ناواقف ہیں جس کی بدولت لفظ محبت بدنام ہوگیا ہے کیونکہ ہم اس کے اصل مطلب سے آگاہ نہیں ہیں آجکل محبت کا مطلب حوس ہے
محبت ایک بندگی ہے اس میں تن کا قرب مت مانگو
جس کو چھو لیا جائے اس کو پوجا نہیں کرتے
آجکل ہمارے معاشرے میں عورت کو محبت کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے اسلام کی رو سے اگر آپ عورت کو عزت دینا چاہتے ہو تو اس سے نکاح کرو اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرولیکن ہم صرف اور صرف محبت کرتے ہیں یعنی دھوکہ کرتے ہیں نکاح سے دور بھاگتے ہیں آجکل کے دور میں اپنی بچی کی حفاظت میں ماں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے انسان وہ سب کچھ سیکھ لیتا ہے جو اس کو معاشرے میں سامنا کرنا پڑتا ہے ماں ہی اپنی بچی کو اس معاشرے کے مطابق چلنا پھرنا اور لباس کا درست استعمال سیکھاتی ہے ہمارے معاشرے میں ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کرے حالانکہ یہی مرد برائی کرتے وقت عورت کی عمر نہیں دیکھتا اس لئے ماں کو اپنی بچیوں کو بچانے کے لئے ان کے تہذیب و آرائش پر خصوصی توجہ دینی چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ عورت اپنے خاص اعضاء جو کسی مرد کی توجہ کا مرکز بنیں ان کو نامحرم سے پردے میں رکھے لیکن اس کے ماں باپ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا ابھی بچی ہے یہ تو بچی ہے لیکن دوسروں کی نظروں سے آپ اس کو کیسے بچا سکتے ہو
محبت ہاتھ میں پہنی ہوئی چوڑی کی مانند ہے
سنورتی ہے کھنکتی ہے کھنک کے ٹوٹ جاتی ہے
اسی طرح دوپٹہ عورت کی زینت ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے دوپٹہ تو ہوتا ہی نہیں اگر ہوبھی تو برائے نام ہوتا ہے کیونکہ اس کو سر پر رکھنے کے بجائے گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور اگر والڈین سے پوچھو تو بس ایک ہی جواب آتا ہے کہ ابھی بچی ہے اسی طرح شادیوں میں ڈانس، چھوٹی آستینیں ، تنگ کپڑے، اور دور کے رشتے داروں کے ساتھ مارکیٹوں کے چکر یہ سب کیا ہے تو بس ایک ہی جواب ابھی بچی ہے کچھ نہیں ہوتا اسی طرح کچھ نہیں ہوتا کچھ نہیں ہوتا کہتے کہتے سب کچھ ہو جاتا ہے مگر اس وقت ہمارے پاس صرف اور صرف پچھتاوا ہی بچ جاتا ہے
اس لئے ذرا سی احتیاط سے ہم ان حوس پرستوں سے اپنی بچیوں کو بچا سکتے ہیں بس اگر ماں یہ جملہ بولنا بند کر دے کہ ابھی بچی ہے کچھ نہیں ہوتاماں کو اپنی بچیوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ وہ اس دھوکہ خوروں کے چنگل سے بچ سکیں جو محبت کے نام پر بچیوں کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں ہمیں اپنی بچیوں کے لباس پر خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہم ان کی حفاظت اچھی طرح کر سکیں اور ان درندوں سے ان کو بچا سکیں جس کی بدولت ہزاروں لڑکیوں کی زندگی برباد ہوئی ہے اکثر اوقات کچھ اوباش قسم کے لوگ بچیوں کو ایک کہانی کی طرح محبت کا دھوکہ دیتے ہیں اور ان سے جھوٹے پیارومحبت کا دعوٰی کرتے ہیں اور ان کی عزت کو پامال کرتے ہیں اگر ماں باپ تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو اپنی بچیوں کو ایسے جال سازوں سے بچا سکتے ہیں لیکن ہم تو دنیا کی زندگی میں اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے گھروں کا خیال تک نہیں ہے جس کا نتیجہ ایک دن بہت بھیانک صورت میں سامنے آتا ہے اس لئے پیسے کماؤ لیکن اس کو اپنی اولاد پر خرچ کرو جب والدین ان کی ضرورت کا خیال نہیں رکھیں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسے اوباش لوگوں کی صحبت اختیار کریں گی جس کا نتیجہ بہت ہی برا ہوتا ہے جس کے بعد ہم منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے لیکن اس وقت ہمارے پاس ایک پچھتاوا ہوتا ہے بس اس لئے اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہمارا اولین فرض ہے اصل محبت تو وہ ہے جو نکاح کے دو بولوں کے بعد دل کی زمین پر خودبخود اس طرح اگتی ہے جیسے بارش کے بعد خود بخود ہریالی۔۔۔۔۔لیکن اگر اس ہریالی کو ۔۔۔۔۔نکاح کے بندھن سے پہلے کاشت کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ دل کی زمین کو بنجر اور سیم زدہ بنا دیتی ہے