تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
ایک امیر ترین شخص کی بیٹی جو نہایت ہی بد تمیز بد زبان اور بد اخلاق ہونے کی وجہ سے نہ صرف خاندان بلکہ علاقے بھر میں مشہور تھی جس کی وجہ سے اُس کے خاندان کا کوئی نوجوان اُس سے شادی کرنے پر رضامند نہ ہوا تو اُس کے امیر ترین باپ کو فکر لا حق ہوئی جس پر اُس کے امیر ترین باپ نے کافی سوچ بچار کے بعد علاقے بھر میں یہ اعلان کروا دیا کہ جو نوجوان میری بیٹی سے شادی کرے گا میں اُسے مالا مال کر دوں گا اس اعلان کو سننے کے بعد بالآ خر علاقے کے ایک نوجوان جو نہایت ہی ذہین تھا نے امیر ترین شخص کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کی حامی بھر لی شادی کے روز امیر ترین شخص نے نہ صرف اپنے داماد کو کافی بھاری رقوم سے نوازا بلکہ روانگی کے دوران ایک اعلی قسم کا گھوڑا بھینس اور مرغا بطور تحفہ دیا وہ نوجوان جب اپنی دلہن کے ہمراہ اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو اُس نے اپنی دلہن کی موجودگی میں اپنے دوست سے کہا کہ جیسا کہ آپ یہ بخوبی جانتے ہو کہ میں خواہ کوئی جانور ہو یا پھر کوئی انسان میں کسی کی اونچی زبان میں آواز نہیں سنتا اور اگر کوئی میرے سامنے اونچی آواز نکالتا ہے تو میں اُسے قتل کر دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ نوجوان اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا ہی تھا کہ اسی دوران مرغا اونچی آواز میں بولنے لگ گیا جس پر اُس نوجوان نے اپنے خنجر سے اُس مرغے کا کام تمام کر دیا تھوڑی دیر کے بعد بھینس نے بھی اُونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا جس پر اُس نوجوان نے خنجر کے پے در پے وار کر کے بھینس کا بھی کام تمام کر دیا یہ سب کچھ امیر ترین شخص کی بیٹی دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں اپنے خاوند سے خوف کھا رہی تھی قصہ مختصر اُس نوجوان نے گھر کے قریب پہنچ کر گھوڑے کو بھی اُونچی آواز نکالنے کے جرم میں اپنے خنجر سے گھوڑے کا کام تمام کر دیا جس کو دیکھ کر امیر ترین شخص کی بیٹی اپنے خاوند سے پوری طرح خوف کھانے لگ گئی گھر پہنچ کر خاوند نے اپنی بیوی یعنی کہ امیر ترین شخص کی بیٹی کو کہا کہ آج کے بعد گھر کے تمام کام کاج تم نے خود اپنے ہاتھوں سے کرنے ہیں یہی کافی نہیں میرے لیئے کھانا بھی خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم نے گھر میں اُونچی آواز سے کوئی بات بھی نہیں کرنی اپنے خاوند کی ان باتوں کو سننے کے بعد بیوی نے اپنے خاوند کے تمام احکامات کی پیروی کرنا شروع کر دی کہ اسی دوران امیر ترین شخص اپنی بیٹی کو ملنے کیلئے آ پہنچا جو ایک وفادار بیوی کی طرح گھریلوں کاموں میں مصروف عمل تھی کو دیکھ کر امیر ترین شخص نے اپنے داماد سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا جس پر داماد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ایک خوف کا نتیجہ ہے بالکل اسی طرح کاش ہمارے ملک کے سابق حکمران اور اُن کی مفاد پرست کا بینہ کے ارکان اسمبلی جو ہمیشہ الیکشن ملک وقوم کی بقا کیلئے نہیں بلکہ اپنی چودھراہٹ اور اپنے ذاتی مفاد کیلئے لڑتے آئے ہیں اور وہ عوام کے ساتھ کیئے گئے جھوٹے وعدوں کے ساتھ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذکورہ حاکمین اور اُن کے منظور نظر ارکان اسمبلی جو انگریز قوم کے بنائے گئے آ سودہ قانون جو صرف اور صرف غریب افراد پر لاگو ہوتا ہے قومی لٹیروں اور اُن کے منظور نظر بیوروکریٹس پر لاگو نہیں ہوتا کا خاتمہ کر کے نیا قانون متعارف کرواتے تو یوں آج ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہو یا پھر وفاقی کے اہل کار لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم نہ کرتے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج جو یہ سابق حکمران اور ان کے منظور نظر ارکان اسمبلی اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں یہ ملک وقوم کی بقا کیلئے نہیں بلکہ اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں اگر یہ اتنے ہی قابل ہوتے تو بھٹو خاندان کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہ کر سکے یہ ملک بھکاری جبکہ یہاں کی عوام لا تعداد پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر خود کشیاں کرنے میں کیوں مصروف عمل ہو کر رہ گئی ان کے دور اقتدار میں یہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے غیر ملکیوں کا مقروض دن بدن کیوں بنتا گیا اس ملک میں مہنگائی اور بے روز گاری میں اضافہ کیوں ہوا ان ناسوروں کے اہلخانہ اپنا علاج اور تعلیم تو غیر ملکوں میں حاصل کرتے ہیں جہنیں اپنی مادری زبان اردو بھی بولنا نہیں آتی یہی کافی نہیں یہ ناسور اپنی لوٹی ہوئی دولت اور کاروبار بھی بیرون ملکوں میں کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب غریب عوام کے بچے اور بچیاں بغیر کسی چھت اور چار دیواری کے بغیر سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے آ رہے ہیں جبکہ متعدد غریب افراد جن میں خواتین اور معصوم بچے سر فہرست ہیں ڈاکٹروں کی عدم توجہ اور بر وقت ادویات کے نہ ملنے کے سبب آئے روز بے موت مر رہے ہیں یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ غریب افراد دن رات کی مشقت کے بعد اگر اپنے بچوں کو میٹرک تک تعلیم دلوا بھی دیں تو بچوں کو بھاری رشوت دیئے بغیر درجہ چہارم کی نوکری حاصل کرنے سے محروم ہو کر قانون شکن بن کر رہ جاتے ہیں جبکہ اُن کے غریب والدین زندہ درگور ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس سے بڑھ کر افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کے نمائندے غریب اور بے بس مظلوم افراد کی آواز حق کو بلند کرنے کے بجائے ان مفاد پرست سابق حاکمین اور اُن کے منظور نظر ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ راشی بیوروکریٹس کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اُن کے حق میں بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کے علاوہ اخبارات میں خبریں چلا کر ان ناسوروں کی خوشنودگی حاصل کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب عامل صحافی حرام کی کمائی کے نہ ہونے کے سبب چھوٹے چھوٹے اخبارات سے وابستہ ہو کر ملک وقوم کی خدمت کرنے میں مصروف عمل ہیں لہذا موجودہ حکومت کے حکمران عمران خان اور اُس کے ہم خیال ارکان اسمبلی اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ انگریزوں کا بنایا ہوا آ سودہ قانون کا خاتمہ اپنا اولین فرض سمجھ کر ادا کریں اور ایسا قانون بنائے جو ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری جبکہ ان ناسوروں کیلئے خوف کی علامت بن جائے