حیدرآباد(علی رضا رانا؛یو این پی )سندھ بھر کی طرح حیدرآباد میں بھی نویں و دسویں کے امتحانات جاری ہیں ، آج حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے تحت دسویں جماعت کا “انگلش” پرچہ لیا گیا ، صبح کئی امتحانی سنٹرز کے دورے کئے سیکورٹی بھی موجود تھی مگر اہلکار آپس میں گفتگو میں مصروف رہے اور نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ بغیر تلاشی دیے گروپ کی صورت میں امتحانی سنٹرز میں جاتے دیکھئی دیے، اسطرح دوسرا مسئلہ امتحانی سنٹرز میں موبائل فون بھی کھلے عام استعمال کیا جارہا ہے ڈیوٹی ٹیچرز بچوں کو کاپی پرچہ دیے کر کلاس تنہا چھوڑ جاتے ہیں کہ جو کرنا ہے خاموشی سے کرو شور نہیں ہونا چاہیے ، اسطرح حل شدہ پرچہ بھی امتحانی سنٹرز میں با آسانی دستیاب ہے ، سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ لطیف آباد پونے پانچ پر واقع نجی اسکول کا ٹیچر ایک سرکاری امتحانی سنٹر میں سرکاری ٹیچر کی جگہ ڈیوٹی دے کر نجی اسکول کے طلبہ کو نقل کی براہ راست سہولت فراہم کررہا ہے ، حیدرآباد تعلیمی بورڈ نقل روکنے میں مکمل ناکام اور بے بس نظر آرہا ہے مگر یہ نجی اسکول کا عملہ کس طرح امتحانی سنٹرز میں ڈیوٹی دے رہا ہے یہ سوال ضرور اہم ہے ، نویں جماعت کے دو اور دسویں جماعت کے ایک اور آج کے دسویں جماعت کے پرچے میں بھی یہ سب موجود رہے ہیں ، المیہ یہ ہے کے امتحانات میں نقل اور من پسند کو ہی ترجہی دینی ہے تو امتحان کیا فائدہ ، اتنا شور اس طرح اس حال میں امتحانات لینے سے بہتر ہے کہ حکومت سندھ امتحانی پالیسی ہی تبدیل کردے کم سے کم تعلیم کی بچی کچی اہمیت ہی بچ جائے ، حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر مسرور زئی ایک قابل شخص ہیں وہ فوری نوٹس لیں نجی اسکول کے ٹیچر کے خلاف اور دیگر تحفظات پر بھی ، البتہ تعلیم کی اہمیت اور امتحان کی شفافیت حکومت ، تعلیمی بورڈز اور نجی و سرکاری اداروں کی زمہ داری ہے