تحریر: علی رضا رانا
آسودہ حال معاشروں کا جائزہ لے تو واضح ہوتا ہے کہ ان ممالک کی ترقی کا راز بلدیاتی نظام پر منحصر ہے اختیارات کی تقسیم بد تریج یونین کونسلز کو منتقل کر دی گئی ہیں پولیس ،صحت،تعلیم ،روزگار ،پینے کا صاف پانی کی غرض کہ عوام کی روزمرہ کی ضروریات اور سہولیات کا ہر شعبہ یونین کونسلز کے زیر سایہ کام کر تاہے اور یوں حکومتیں صیح معنوں میں عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کر تی ہیں اور نظام حکومت احسن طریقے سے چلاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد حکومت پر 100% قائم رہتا ہے ۔ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو لپیٹ کر اپنے تخت کے نیچے دفن کیئے رکھا ہے۔پہلے تو بلدیاتی انتخابات نہ کروائے گئے اور جب سپریم کورٹ کے دباؤ کے تحت انتخابات ہوئے تو منتخب کردہ نمائندوں کو بے آسرہ چھوڑے رکھا اور فنڈکے بجائے لارے چپے دیتے گئے چناچہ جیسے کہ پانی کی لائنیں،گلی محلوں میں نالی پکی کرانی ہو یا محلے میں سیورج کا کھڑا پانی نکلوانا ہو تو اپنے علاقے کے ایم پی اے ،ایم این اے کو ڈھونڈے جو اسے انتخابات سے پہلے ملتا ہے وہ بھی اس وقت جب وہ فنڈ پر ہاتھ منہ صاف کر کے ڈکار لے چکا ہوتا ہے دنیا میں کہی چلے جائیں باعزت معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا یہ ان نمائندوں کا کام اور ذمہ داری بھی ہے ۔اگر پاکستان میں صیح طور پر بلدیاتی نظام رائج کر دیا جائے تو پاکستان کے ستر فیصد سے زائد مسائل ایک دو سال کے اندر ہی حل ہو سکتے ہیں لیکن جہموریت کے نام پر موروثی بادشاہت جوکہ پنجاب اور سندھ میں اب تک قائم و دائم ہے اس بادشاہی حکومت کے ہوتے نیا نظام عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔بلدیاتی نظام کی اس خطے میں مختصر تاریخ کا جائزہ کچھ یوں ہے کہ سر سید احمد خان جب وائسرائے کونسل کے رکن نامزد ہوئے تو ان کی کوششوں سے انگریزوں نے یہاں کی عوام کی حکومت کو اصولن تسلیم کر لیا اور اس کی ابتداء 1883 میں لوکل سلف گورئمنٹ ایکٹ کے نفاظ سے ہوئی تو برصغیر میں پہلی بار بلدیاتی نظام رائج ہوا اور لوگ حق راہی دہی کے جدید نظام سے روشناس ہوئے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان میں بلدیاتی نظام 1912 کے قوانین کا تسلسل ہے ، قیام پاکستان کے وقت کیونکہ مملکت خدا داد کا ابتدائی ڈھانچہ برطانوی ایکٹ 1935 کے تحت ہی رکھا گیا اور وقتی طور پر اس کے تحت نظام چلایا گیا تو 1959 میں پاکستان میں پہلی بار سیاسی مصلحتوں اور ضرورت کے تحت صدر ایوب خان نے نئے طرز کا نظام رائج کیا جسے 1962 کے آئین کے باب دوئم کے آرٹیکل 158 کے تحت الیکٹرول کالج میں تبدیل کر دیا گیا تاہم پاکستان میں یہ ادارے مخصوص شکل میں 1964 میں متعارف کرائے گئے اور بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی کاموں میں شرکت کے مواقع مہیا کرنے کے علاوہ کچھ عدالتی اختیارات بھی تجویز کیئے گئے ۔1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیا بلدیاتی قانون پیپلز گورنمنٹ آرڈینس جاری کیا جس کے تحت انتخابی حلقے کا کردار ختم کر کے اسے سماجی خدمات تک محدود کر دیا گیا ان کی حیثیت غیر نمایا رہی ۔جنرل ضیاء الحق نے1979 میں پاکستان میں مقامی حکومتوں کا آرڈینس جاری کر کے انتخابات کروائے ۔ اس کے بعد 1998 میں بھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے مگر بلدیاتی نظام کا جو سب سے کامیاب دور گزرا وہ جنرل پرویز مشرف کا تھا جس نے2001 سے 2005 میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نا صرف استوار کیا بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لا محدود اختیارات سونپے گئے اور ناظمین کو بے شمار فنڈز بھی جاری کئے گئے جس کا خوبصر نتیجہ سابقہ کراچی ،حیدرآباد اور دیگر اہم علاقوں کی حالات زار کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں یا تو آمرانہ نظام قائم رہا یا جہموریت کے نام پر موروثیت قائم ہے لیکن ایک مشرف دور کے سوا کسی دور حکومت میں بلدیاتی نظام کو اس قدر فعال نا بنایا جاسکا ،مگر اب دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم جدید شہر کے بجائے غیر سنجیدہ جنگل میں رہتے ہیں موجودہ ناقص بلدیاتی نظام عام آدمی کے لیے درد سر بن گیا ہے ۔ تعلیم ،صحت، صاف پانی، گٹر کی لائینیں،روزگار، بیواؤں کی امداد اور بنیادی سہولیات سمیت اہم مسائل جو ں کے توں ہیں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے کچھ ہی وقت رہ گیا ہے مگر حیدرآباد سمیت کراچی ،میرپور اور دیگر بڑے شہر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دور جنگل میں رہ رہے ہیں کیونکہ روڈ ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں جا بجا گٹر ابل رہے ہیں صاف پانی کی جگہ گندا پانی پینے کو دیا جا رہا ہے پینے کا پانی خریدنا پڑ رہا ہے تاکہ صحت خراب نہ ہو جائے ، میئر صاحبان بے بس نظر آتے ہیں اور نا اہل بھی ، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ٹائم پاس کیا جار ہے ہر یوسی اس وقت مسائل کا گڑ بن گئی ہے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت اس وقت اپنے مفادات میں مصروف عمل ہیں بلدیاتی نظام یا بلدیاتی نمائندوں پر ان کی کوئی توجہ مرکوز نہیں ہے ، آج بھی عوام 2001 میں قائم ہونے والے بلدیاتی نظام کو یاد کرتی ہے جہاں کام تو ہوا ہے کم سے کم ، بلدیاتی چیئرمین ،کونسلرز،میئرز تمام تر اس وقت مختلف سیاسی گروپس میں تبدیل ہو گئے ہیں اس خراب ہوتی صورت حال میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو بھی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہے بہتر ہے کہ عوامی مسائل پر نظر ثانی کریں او ر بلدیاتی نظام بہتر بنائیں جس سے عوامی رائے بہتر انداز میں قائم ہوسکے ۔