اتوار کادن ہو اور اوپر سے سردی ، چھٹی منانے کا مزادوبالاہوجاتاہے۔ حسب عادت چھٹی والے دن میں دس بجے کے قریب نیند سے بیدار ہوااور اپنے موبائل کو آن کیا۔ گڈ مورننگ کے میسجز نے ان بکس کو بھرنا شروع کردیا۔ میں نے ایس ایم ایس کو پڑھنا شروع کیا اور پھرساتھ ساتھ ڈیلیٹ بھی کرنے لگا۔ ان ایس ایم ایس میں ایک میسج پرآکر میر ی انگلی رک گئی۔ میں نے ایس ایم ایس پڑھا اور پڑھنے کے بعدمجھ میں ڈیلیٹکرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
وہ ایس ایم ایس ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ) کا تھا۔جس میں لکھا تھا کہ مارچ کا مہینہ آنے والا ہے اور مارچ 2003سے مارچ 2014تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں گیارہ سال ہوجائیں گے ۔ہماری عزت ، آبرو اور وطن کی بیٹی کو ابھی تک آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ مجھے تمھاری مدد او رحمایت کی ضرورت ہے۔مجھے یہ ایس ایم ایس پڑھ کر دلی دکھ ہوا ۔ میں سوچنے لگا کہ جب مجھے یہ ٹیکسٹ پڑھ کر دکھ ہواہے تو ڈاکٹر فوزیہ اور ان کے اہل خانہ کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کسی طرف سے کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی عنقریب ہورہی ہے۔
پاکستان کی بیٹی جو اپنوں کی مہربانی سے پچھلے گیارہ سالوں سے امریکہ کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور ایک ایسے جرم کی سزا پارہی ہے جو اس سے سرزد بھی نہیں ہوا ۔ہماری غیر ت تو دیکھو کہ ہم گیارہ سال سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں بس ایک دو بار میڈیا پر اس کے حق میں آواز اٹھا کر پھر سوجاتے ہیں۔جس نے رہائی دلانی ہوتی ہے وہ طوفان کی طرح آتے ہیں اور سب کچھ ساتھ اڑاکر لے جاتے ہیں۔امریکہ کا ریمنڈڈیوس جوایک قاتل تھا اس کو امریکہ نے کیسے آزاد کرایا؟ ریمنڈڈیوس کا پاکستان کی عدالتوں میں چلنے والا مقدمہ منٹوں میں حل ہوا اور امریکہ طوفان کی طرح ریمنڈ ڈیوس کو اڑا کر اپنے ملک میں لے گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اپنی بہن کی رہائی کے لیے اس دن سے آج تک چین سے نہیں بیٹھیں۔ ملک کے طول و عرض میں ایک چینل سے دوسرے چینل ، ایک اخبار سے دوسرے اخبار اور ایک سیاسی اکائی سے دوسری اکائی تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ایک کمزور و بے بس خاتون نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے آواز بلند نہ کی ہو۔آج پھر نہ جانے اس نے اس حق کے ساتھ دینے کے لیے کتنے لوگوں کو ایس ایم ایس کے ذریعے بیدار کیا ہوگا۔شاید جس طرح میرے دل کویہ میسج پڑھ تکلیف پہنچی اسی طرح کسی اورکوبھی دکھ ہوا ہوگااور اس نے بھی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی آواز میں آواز ملانے کے لیے اور اپنی بہن ،بیٹی کی رہائی کے لیے حکام بالا تک آوازپہچانے میں ڈاکٹر فوزیہ کاساتھ دینے کافیصلہ کیا ہو۔
اپوزیشن دور میں میاں نواز شریف برملا کہاکرتے تھے کہ میری حکومت آئی تو میں پاکستان کی بیٹی کو واپس لاؤں گا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میا ں نواز کے اس نعرے پر عوام نے اپنی بیٹی ، بہن کی خاطر زیادہ ووٹ دیے ہوں۔ ن لیگ کی حکومت آنے کے بعد چوہدری نثار وزیر داخلہ سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقاتیں بھی ہوئی اور ایسا لگ رہا تھا کہ شاید جلد کوئی پیش رفت ہونے والی ہے مگر جب وزیر داخلہ کا یہ بیان سامنے آیا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے تو پھر سب سمجھ گئے کہ ’’کمیٹی بناؤ اور مٹی پاؤ‘‘ ایک ہی ہے۔
میاں صاحب جب امریکہ کے دورے پر گئے تو ہر کوئی سمجھ رہا تھا کہ وزیراعظم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ضرور اٹھائیں گے مگر ان کا دورہ تو کسی اور مقصد کے لیے تھا۔عوام کو توابھی تک ایسی کوئی خوشخبری نہیں سنائی جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ہونے والی ہے۔میاں صاحب ان باتوں کو آپ سے زیادہ بہتر کون جانتا اور سمجھتا ہے ۔بس ایک فیصلہ لینے کی دیر ہے ۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی مریم نواز جیسی بیٹی کو باعزت پاکستان لا کراپنے کئے ہوئے وعدے کا پاس کرتے ہیںیا پھر ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘کے مترادف سب ایک جھوٹا ڈرامہ تھا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی کوشش کرنی چاہیے جو امریکہ میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ جن کا ایک قدم پاکستان میں اور دوسرا مریکہ میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جب ایک عورت ہوکر اتنی محنت کرسکتی ہے تو کیا ہمارے مسلمان بھائیو میں طاقت نہیں کہ وہ اپنی عزت کو ذلیل و رسوا ہونے سے بچائیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے ہماراضمیر مردہ ہوچکا ہے کیونکہ وہ اگر بہن ہے تو ڈاکٹر فوزیہ کی ہماری نہیں،اگر ہم حقیقی بہن سمجھتے تو ہمارے دن کاسکون اوررات کی نیند اڑچکی ہوتی۔ بھوک نام کی کوئی چیز ہمارے آس پاس نہ ہوتی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کاسمندرہوتا۔
میں اپنے اس آٹیکل کے ذریعے میاں نوازشریف ، صدر ممنون حسین اور دیگران لوگوں کو جن پہنچ اوبامہ تک ہے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے جلد سے جلد کوئی قدم اٹھائیں اور ان کی رہائی کے لیے جو ممکن ہوسکے وہ کرکے انہیں آزادی دلائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔