در حقیقت صحافی کی کہانی اورمسائل

Published on May 5, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 311)      No Comments

تحریر :علی رضا رانا
کئی سال سوچنے اور ایک سے زائد راتیں مکمل جاگنے کے بعد سکون نہ آنے پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس اہم ترین کہانی واقع کو پوری قوم کے سامنے رکھوں اور اور سوچتا ہوں کہ خبر دینے یا بنانے والے آج خود خبر بن کر رہ گئے ہیں ان گنت واقعات اکثر و بیشر میرے سامنے آتے جاتے ہیں کبھی سوشل میڈیا تو کبھی موبائل پر میسجز کے دوران یا تنخواہ کی عدم ادائیگی کی احتجاج کی صورت میں مگر اﷲ تعالیٰ نے شعور اور بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور سب سے بڑی نعمت سوچنے اور سوچ کا درست استعمال کرنے کی ہے جوکہ ہر ایک انسان میں موجود نہیں ہے یہ کچھ مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے جن اشخاص میں یہ سوچ موجود ہوتی ہے وہ اپنے خیالات کو قلمبند کرکے ملک و قوم کی رہنمائی کرتے ہیں اور خود کو ایک بے مثال شخصیت کے طو رپر پیش کرتے ہیں اگر میری سوچ اور میرے خیالات کا موازنہ کیا جائے تو میں بھی بتا تا چلوکہ میں نے 10 سال صحافت کی ہے اور کر بھی رہا ہوں اور خود صحافت کی ڈگری سمیت مختلف علوم بھی حاصل کیے رکھے ہیں اسی طرح مختلف اخبارات اور چینلز سمیت خبر رساں سے واسبتگی رہی اور موجود بھی ہے اور ساتھ ہی مختلف اخبارات کے لئے مضامین لکھتا ہوں اور باخوبی اچھے انداز میں شائع بھی ہوتے رہتے ہیں ساتھ ہی کئی اہم سیاسی، مذہبی اور تعلیمی ،صحافتی اہم ترین شخصیات سے اچھے تعلقات بھی ہیں مگر آج جو کہانی اپنے ساتھی دوستوں کو بتانے جارہاہوں یہ ہمارے ایک ساتھی سینئر صحافی کی کہانی ہے جنہوں نے 30 سال سے زائد صحافت کی ہے اور مختلف مشکل ترین دور حکومت دیکھے ہیں بے شمار سختیاں برداشت کیں ہیں اونچائی سے لیکر نیچائی تک سخت ترین حالات میں بھی پختہ عزم زندگی گزارنے کی مثال اس شخص میں باخوبی میں نے دیکھی ہے اس شخص نے دنیا اور ملک و قوم کے دیگر مسائل پر بے شمار مضامین لکھے نام کمایا تعلقات بنائے مگر پیسہ صفر کمایا جوکہ جمع کرنے سے بھی قاصر رہے معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ یہ سچ لکھتا تھا اور سچ ہی میں سے اس نے وقت ادوار کو گزر دیا میں نے اپنے معمولی تجربے کے اندر اس شخص سے بہت کچھ سیکھا ہے مگر آج سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس شخص کے لئے کیا بیان کروں ۔ اپنے ادارے کے مالکان کو فائدہ دیتے دیتے یہ شخص خود ایک خبر بن کررہ گیا ہے اس نے صحافت کو عبادت سمجھا 3ہزار روپے سے 9 ہزار روپے میں30سال گزار دیئے اسی طرح 9 ہزار روپے میں تین بچیاں پال کر سسرال وارنہ بھی کردیں اور آج یہ خود ایک مثال کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے میں خود اس کی تکلیف کیا بیان کروں جو خود ایک بڑی مثال ہے میں نے ان سے کہا کہ میں آپ پر لکھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے منع کردیا جواباً کہا کہ جب تک اﷲ تعالیٰ نے زندگی ہے تب تک میں زندہ رہوں گا اور جب اﷲ نے زندگی واپس مانگی تو آنکھیں بند کرکے سوجاﺅں گا مگر نہ دیکھنے والے نہ عزت دینے والوں کے آگے مزید جھکوں گا احساس عزت و احترام کا ایک محور ہے جوکہ انسان خود بناتا ہے جس کی مثال میں خود ہوں اور ایک مثال آپ ہیں جس سے میں یہ بات کررہا ہوں میں نے مشکل ترین دور دیکھیں ہیں مگر احساس کا رشتہ میرا کسی دوست سے نہیں ٹوٹ سکا آخر میں ، میں خاموش ہوگیا اور وہ چپ بیٹھ گئے۔
آخر میں، میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ صحافت کے اس مقدس پیشے میں اہم کام کرنے والے رپورٹرز ، پیج میکرز، کمپورزکو مالکان 5سے8 ہزار روپے دے کران کے ساتھ نہیں بلکہ مقدس پیشے کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں جوکہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور اب تو زیادہ تر ایسے ادارے چینلز کی صورت میں آگئے ہیں جن میں سیلیز کا نہ دینا رواج بن گیا ہے اور اکثر و بیشتر بڑے احتجاج سامنے بھی آرہے ہیں جوکہ اس مشکل ترین دور میں ایک مشکل عمل ہے ۔ اسی طرح میری گزارش حکومت اور صحافتی تنظیموں سے بھی ہے کہ وہ صحافت جیسے مقدس پیشے کو مزید تحفظ فراہم کریں اور ایسے ادارے جو سیلیز پیڈ نہیں کررہے ہیں انہیں فوری طور پر بند کریں اور صحافی دوستوں اور صحافت سے تعلق رکھنے والوں کو عزت و احترام ترجیح دیں ۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ اس کہانی کو سن کر اور اس پر عمل کرکے ہمیں دنیا وآخرت میں سرخروں کریں اور آسانیاں عطا فرمائیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes