ہنزہ(یواین پی) گلگت بلتستان سے ایک اہم خبر آئی ہے جس میں ہنزہ کے علاقے میں گردوغبار سے سیاہ ایک گلیشیئراوسطاً چار میٹرروزانہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ششپر نامی یہ گلیشیئر حسن آباد گاؤں کے قریب واقع ہے اور گزشتہ جولائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک مقامی چرواہے فہیم بیگ نے کہا کہ میں گرمیوں میں اپنے یاک چرا کر آرہا تھا تو گلیشیئر دور تھا لیکن دوبارہ اکتوبر میں دیکھا کہ گلیشیئر نے وادی کا مکمل طور پر بند کردیا ہے۔گلگت بلتستان ڈیزازٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے نائب سربراہ شہزاد بیگ نے ششپر گلیشیئر کے آگے بڑھنے کی وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ وہ قراقرم فالٹ لائن پر واقع ہے جہاں زلزلہ جاتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ساتھ ہی گزشتہ پانچ برس میں برفباری میں اضافہ ہوا ہے جسسے گلیشیئر کی برف بڑھی ہے۔اس کی تصدیق ہندوکش، ہمالیائی خطے پر جاری ایک رپورٹ سے بھی ہوئی ہے جسے انٹرنیشنل سینٹر فارانٹی گریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) نے شائع کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قراقرم اور مغربی ہمالیائی علاقے میں موسمی تغیرات اور برف گرنے میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم آئی سی آئی ایم او ڈی کے ایک اور ماہر فلیپس ویسٹر کہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض گلیشیئر مستحکم ہیں اور بعض کی برف بڑھ بھی رہی ہے۔ تاہم اگر 2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو نہ روکا گیا تو 2100 تک خطے کی ایک تہائی برف پگھل جائے گی جوہزاروں گلیشیئروں کی صورت میں موجود ہے۔ضلع ہنزہ کے کمشنر باب صاحب دین نے بتایا کہ ششپر گلیشیئر 15 کلومیٹر چوڑا ہے اور گزشتہ جولائی سے ڈھائی کلومیٹر آگے آچکا ہے اور اب بھی روزانہ چار میٹر کی رفتار سے آگے کی جانب سِرک رہا ہے۔ ’ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو یہ دو برس میں قراقرم ہائے وی تک پہنچ جائے گا لیکن ہم پرامید ہیں کہ اس کی حرکت رک جائے گی،‘ انہوں نے کہا۔ششپر گلیشیئر کے پاس ہی ایک مچوار نامی ایک اور گلیشیئر بھی ہے جو 2006 سے 2017 کے دوران چار کلومیٹر تک آگے بڑھ چکا ہے۔ چونکہ دونوں گلیشیئر قریب ہیں اس لیے گرمیوں میں مچوار کا پگھلنے والے پانی دریا میں جانے کی بجائے پگھل کر وادی مچوار میں ایک جھیل بنادے گا۔ایک ماہ قبل گلیشیئر کے پھٹنے اورٹھنڈے پانی کے سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا لیکن اب ششپر گلیشیئر میں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس کا رسنے والے پانی چشموں کی صورت میں بہہ رہا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئر کے اندر بننے والا دباؤ کم ہوگیا ہے۔لیکن اگر گلیشیئر کے درز مزید کھل جاتے ہیں تو اس سے نیچے موجود کم ازکم 72 گھروں کو شدید خطرات پیدا ہوجائیں گے جو اس کے راستے میں موجود ہیں۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر کمشنر ہنزہ نے لوگوں کو خطرے کی صورت میں نکلنے اور دوسری جگہ منتقل ہونے کی رہنمائی بھی کی ہے اور ایک اس پر نظر رکھنے کے لیے ایک کنٹرول روم بھی بنایا گیا ہے۔گرین کلائمٹ فنڈ کے تحت شمالی پاکستان میں گلیشیئر پھٹنے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے 37 ملین ڈالر کی گرانٹ دی گئی ہے۔ یواین ڈی پی کے تحت اس منصوبے کے ملکی سربراہ عبدووقاص عبدالرحمانوف نے ششپر گلیشیئر کا دورہ کرکے کہا ہے کہ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور اب ان کے مطابق طویل وقفے کے بعد ششپر گلیشیئر پر کام شروع کیا جائے گا۔گلگت بلتستان میں 16 اور خیبرپختونخواہ میں 8 وادیاں ایسی ہیں جو گلیشیئر کے اچانک پھٹ پڑنے (گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ)کے خطرے میں ہیں جسے مختصرجی ایل او اف کہتے ہیں ۔ عبدالرحمانوف کے مطابق حکومت، مجاز اداروں اور یواین ڈی پی کے تعاون سے گلیشیئروں پر سینسر کی تنصیب اور حرکت پر نظر رکھنے کے کام کو فوری طور پر تیز کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ڈرون اور سیٹلائٹ سے بھی گلیشیئروں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ پیشگی آگاہ کرنے کا ایک نظام وضع کیا جاسکے۔ ’ اگرچہ ہم خطرات کا اندازہ توکرسکتے ہیں لیکن یہ 100 درست نہ ہوگا،‘ عبدالرحمانوف نے کہا۔محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر، محمد عاطف نے کہا کہ گلیشیئر کے پگھلاؤ کی حرکیات بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ کبھی تو گلیشیئر موسلا دھار بارش سے ہی پھٹ جاتے ہیں اور کبھی مسلسل گرمی سے پگھل کر ’خشک سیلاب‘ کی وجہ بنتے ہیں۔یواین ڈی پی کے جی ایل او ایف منصوبے کے سربراہ محمد ابراہیم خان کہتے ہیں کہ اس سے قبل وادی چترال اور گلگت میں اقوام متحدہ کے مطابق پذیری (ایڈاپٹیشن) فنڈ سے کئی اسباق ملے ہیں۔ ان میں مختلف محکموں کے درمیان بہتر روابط بہت ضروری ہے۔اب اگلے پروجیکٹ میں فوری سیلابوں کے خطرات کو بھی نوٹ کیا جائے گا دوسری جانب ششپیر کا علاقہ مکمل طور پرپہاڑی خطہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ خاص دیواروں کی تعمیر اور گہری جڑوں والے پودوں کی افزائش بھی کی جائے گی تاکہ بارش کے خطرات کو کم کیا جاسکے۔ نئے پروجیکٹ میں رہائش پذیر لوگوں کو آگہی اور شعور بھی فراہم کیا جائے گا۔ایک مقامی نے بتایا کہ وہ گلیشیئر کے بارے میں کئی کہانیاں سنتے رہے ہیں ۔ کبھی کوئی کہتا ہے کہ ششپر گلیشیئر رک گیا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم ہنزہ کے مرکزی علاقے علی آباد کے رہائشی متفکر ہیں کہ گلیشیئر سرکنے سے لگ بھگ ایک ماہ بعد پانی کی فراہمی کا راستہ بند ہوجائے گا۔ کیونکہ اوپر ایک گلیشیئر سے ایک پائپ لائن لکڑی کے پل کے ساتھ ساتھ علی آباد تک آرہا ہے جو گلیشیئر کی وجہ سے رک سکتا ہے۔’ اگلے 20 روز میں گلیشیئر چوبی پل کو تباہ کردے گا،‘ مقامی کسان ارمان علی نے کہا۔ ہم ہر روز گلیشیئر کو چیک کرتے ہیں اور پانی کے لائن کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ اس سے فصلیں بھی متاثر ہوں گی لیکن کون بھلا گلیشیئر کے آگے ٹھہر سکتا ہے۔