تحریر۔۔۔ ثناءظہیر
دوہزار سات کی اک خوبصورت سی شام میری اورشاہانہ کی ملاقات سوشل میڈیاکے ذریعے واٹس اپ کے وائس مسیجز پر سائنسی گروپ میں ہوئی تھی پھر انباکس میں ہماری دوستی مضبوط ہوتی ہوتی اک خوبصورت اور مضبوط سے تعلق میں ڈھلتی گی شاہانہ جیسے لوگ اگرچہ مختصر سی عمر لیکر آتے ہے لیکن وہ اپنی مختصر سی عمر میں بھی صدیوں کی داستانیں چھوڑ جاتے جس میدان میں بھی اترتے ہر جیت کومٹھی میں قید کرلیتے ہے اور ہر تعلقات میں سچی اور کھری ہونے کی وجہ سے ہم سب دوستوں میں وہ ہمیشہ ہی نمایاں رہی اور رہے گی وہ ایسی ہی تھی پیاری سی باتیں کرنے والی اس کے ہر اندازسے بہت ہی اپنائیت اور محبت ملتی تھی گویااس سے بات کرکے اک سکون سامحسوس ہوتاتھاہر علم پر گہرا عبور رکھتی تھی اور مدمقابل کے ہر سوال اور ہرچیز کی دلیل تک اس کے پاس موجود ہوتی تھی ہراک کا دکھ سننا اور اپنی ذات کے ہر پہلو کوپوشیدھ رکھنا اسے خوب آتا تھا۔وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی خوبصورت سی شاہانہ اگرچہ آج وہ ہمارے ساتھ موجود نہیں ہے لیکن اس کی خوبصورت یادیں ہم سب دوستوں کو ہمیشہ ہی اس کی موجودگی کا احساس دلاتی رہے گی سوشل میڈیا اک ایسی وسیع دنیا ہے اس پر دنیا کے ہر ملک کاکونہ کونہ اور کونے کونے سے جڑے لوگ آپ کو مل جاتے ہے جواچھے بھی ہوتے ہے اور برے بھی ہوتے ہے اور میرا ایمان ہے اگر ہم اچھے ہے تو ہمیں اچھے لوگ ہی ملے گے اگر برے ہے تو برے ہی ملے گے۔شاہانہ جیسے دوست بھی بہت کم ہی ملتے ہے۔اگر کبھی مل بھی جائے تو بہت سے مختصر وقت میں ہی صدیوں کی جان پہچان بناکر بس گم ہوجاتے ہے جیسے پھول ہوتے صبح کھلے کھلے شام کو مرجھا ئے مرجھائے لیکن پھر بھی پائداری کے ساتھ شاخوں پر لٹکے ہوئے اپنے ہونے کایقین دلانے میں مبتلاایسی ہی وہ بھی تو تھی جس نے ہمیں سیکھایا کہ زندگی تم لوگو ضائع کرے فضولیات میں ڈال کر تم لوگ اس کو اچھائیوں میں ڈال کر اس کو وہ وجود بخش دو جب یہ زندگی تمہارا ساتھ چھوڑ بھی جائے تو تمہارا نام ومقام ہمیشہ ہی زندہ رہے جائے تمہارے کاموں کے حوالوں سے جس نے اک موبائل کے ذریعے ہمیں دنیا کے ہر مشکل سے مشکل کام بھی آسانی سے سیکھا دیئے دنیا کا ہر کونہ ہمیں دیکھا دیا کچھ لوگ شاید سوچے گوگل پر سب ممکن ہوتا لیکن جب ان چیزوں کا پتہ ہی نہ ہو اور اک فون ہم صرف کالز مسیجز پر ضائع کردیں تو ہماری معلومات صرف اتنی ہی ہوتی ہے اس لئے جب ہم اس موبائل کمپیوٹر کے ذریعے ہر فن سیکھ لیتے ہے پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اک انجان اور جانے والے میں کتنافرق ہوتا ہے یہی فرق ہمیں شاہانہ نے سمجھایا اور بتایا کہ یہ موبائل اک دنیا ہے اگر تمہارے اندر تجسس ہے تو اس دنیا کو کھوج کر دیکھو اس میں گھوم پھر دیکھو تم لوگو کو ساری حقیقتیں اور فریبوں کی سمجھ آجائے گی اتنا اپنا قمیتی وقت ہم لوگو کو دیا آن لائن سارا سارا دن بھی سیکھاتی تو ہر سوال پر ایسے ہی فریش ملتی جیسے یہ کوئی روبوٹ ہو جس کو صرف ہسنا اور ہنسانا آتا ہے اتنی خوش اخلاقی سے ہر سوال کا جواب دیتی جیسے اس نے حل کرکے ہمارے اندر منتقل کردیا ہوسب سےاس کی پیاری خامی جسے وھ خامی اور ہم شاگرد سارے محبت مانتے تھے اسے سبھی کو نک نیمز سے بلانا اچھا لگتاتھا جب کبھی کھبار ہم سب گروپ ممبران کاجھگڑا ہوجاتا تو وھ اک اک کو برا بھلاکہنے کے بجائے خوبصورت سے انداز میں سب کی صلح کروادیتی اور کہتی میرے بعد میری اور میرے گروپ کی آپ لوگو آسانی اور قدر معلوم ہوگی لیکن آج سچ وہ اک گروپ نہیں تھا اک اکیڈمی تھی اور وھ ہماری پرنسپل تھی شاہانہ جس نے ہم جیسے لوگو کو تراشا خراشااورہمیں بیشک دولتمند بننے کے ہنر نہیں سیکھائے اس نے لیکن انسانیت اور اپنا مقام بنانا سیکھا گی ہے اس دنیا کے معاشرے میں ام حانی ہاشم لاثانی اور میں ثنا ظہیر شاہانہ کے اگرچہ بہت ہی قریبی دوستوں میں گردانے جانتے تھے لیکن مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے وقت وھ ہمیں بھی سبھی کے ہی برابر رکھتی جتنے اصول دوسرے ممبران کیلئے تھے اتنےہی اصول ہم تینوں کیلئے بھی تھے شاہانہ اک دوست نہیں تھی اک علم کا سمندر تھی سائنسی معلومات سے لیکر روحانیت تک ہر چیز میں اس کو آگاہی تھی اتنی پیاری اور زندھ دل محبتیں بانٹنے والی شاہانہ جب سے ہم لوگو سے بچھڑی ہے تب سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ بظاہر تو ہمارے کچھ نہیںہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتے ہے سانسوں میں تخلیق سانسیں تخلیق جیسے وہ بھی بالکل ایسی تھی اور بیشک وہ اس دنیا سے چلی گی ہے لیکن وھ ہم سبھی دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ ہی زندھ رہے گی کبھی مسکراہٹ کی صورت میں تو کبھی آنسوئں اور کبھی ڈھیری محبتوں چاہتوں اور شدتوں کی صورت ہمارے ساتھ اپنی پیارپیاری یادوں کی صورت میں بالکل کسی سائے کی مانند رہےگی ہمیں حوصلے مضبوطی بخشنے والی عظیم استاد اور ہمارے دکھ سکھ بانٹنے والی پیاری سی دوست شاہانہ سکون لحد اللہ تعالی اسے نصیب کرے آمین ۔