تحریر ۔۔۔ میر افسر امان
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے نمایندے اور اللہ کی طرف سے اللہ کے بندوں کو اللہ کاپیغام پہنچانے والے ،اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت سے نوازا تو سب سے پہلے کہا کہ پڑھ اللہ کے نام سے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم دیا۔ یعنی نبی کونبوت کی ابتدءہی میں علم سکھایا۔ اس سے قبل انسان کو علم بیان کرنے کے لیے زبان دی۔ جبکہ باقی حیوانوں کو بے زبان رکھا ،اسی لیے وہ اپنامدھا بیان نہیں کرسکتے ۔ دیکھئے نا! انسان کی عظمت کا ابلاغ کرنے کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کا فرشتوں سے مکالمہ کرایا۔فرشتوں نے اللہ سے عرض کی، کہ ہم آپ کی کبرایائی بیان کرنے کے لیے موجود ہیں، تو پھر انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت سمجھ نہیں آتی۔ اللہ نے فرشتوں کے ان خیال کے جواب میں فرمایا۔جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس بات کوابلاغ عام کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان اور فرشوں کے درمیان مکالمہ کرایا۔فرشتوں سے کہا کائنات میں موجود اشیا ءکے نام بتاﺅ ۔ فرشتوں نے عرض کی کہ ہم وہ وہی کچھ جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔اللہ نے آدم ؑ کو کہا کہ تم اشیاءکے نام بتاﺅ۔ آدم ؑ نے فر فر اشیاءکے نام بتا دیے۔ انسان فرشتوں سے مکالمے میں جیت گیا۔ کیونکہ اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت فرشتوں وہ ہی علم سکھایا تھا جتنی ضرورت تھی۔انسان کو اشیاءکے نام اس لیے سکھائے ،تا کہ آگے دنیا میں رہ کر اس علم کی انسان کو ضرورت تھی۔ انسان اس کائنات میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس لیے دنیا کے پہلے انسان، حضرت آدم ؑ کو علم سے مالا مال کیا ۔جبکہ خدا بے زار ، مغرب کے مادہ پرست دانشورں نے شوشہ چھوڑا کہ انسان پہلے جاہل تھا۔ رفتہ رفتہ اسے علم حاصل ہوا۔ پھر کہاانسان پہلے بندر تھا۔ ترقی کرتے کرتے موجودہ شکل میں پہنچا۔ نہیںہر گز نہیں!علم تو اللہ نے انسان کو پیدائیش کے وقت ہی سکھا دیا تھا۔ اس سے قبل ازل سے ابد تک جتنے بھی انسان پیدا ہونے ہیں ان کی روحوں کو اپنے سامنے بیٹھا کر اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے۔”کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں۔ سب روحوں نے کہا آپ ہمارے رب ہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں“ معلوم ہوا کہ اللہ نے سب انسانوں کو پید ا ہونے سے پہلے ہی اپنی قدرت کمالا سے علم عطا کر دیا تھا۔ اسی علم کی کی روشنی میں انسان نے دنیاوی علم بھی سیکھا۔اللہ تعالی قرآن میں بار بار انسان سے فرماتاہے کہ میری کائنات کا مشاہدہ کرو۔ ہوا،پانی، روشنی،روز و شب ، چاند، سورج، ستارے،آسمان، زمین، دریا، سمندر، پہاڑوں اور انسان اپنی پیدائیش پرغور فکر کرو۔ تم جتنا جتنا غور فکر کرتے جاﺅ گے، ہر طرف تمھیں اللہ کی نظر آئے گا۔ غور و فکر سے تمہارے سامنے کامیابی کے راستے کھلتے جائیں گے۔ پھراس زمین پر بھی تمہاری عظمت کا بھول بھالا ہوگا۔ جب میرے پیغمبروںؑ کی ہدایات کے مطابق دنیا کے معاملات چلاﺅ گے تو تم کو واپس اسی جنت میں بھی داخل کروں گا جہاں سے تمہارے والدین نکالے گئے تھے۔ یہ اصل کامیابی ہو گی۔ مطلب ہوا کہ اسلام نام ہی ہے علم کا۔ اگر الہی علم کے مطابق دنیاوی علم نہیں تو سارے علم جہالت ہیں۔ جو بھی دنیاوی علم اللہ کے دیے ہوئے علم کے مطابق ہیں وہ علم ِنافح ہیں۔اس میں دنیا کی بھی کامیابی ہے اور آخرت کی بھی۔ جو بھی علم اللہ کے رسولوں ؑ کے بتائے ہوئے الہی علم کے مطابق نہیں ،وہ جہالت ہے اور جہالت ہی رہےں گے۔اگر دنیا کی بات کی جائے تو رسول اللہ نے مکہ میںجب اللہ کے علم کے مطابق روشنی پھیلائی تو صرف تئیس سالوں میں عرب گلو گلزار بن گیا۔ اور آگے کے بتیس سالوں میں اُس وقت کی معلوم دنیا جنت نظیر بن گئی۔ رسول اللہ نے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں قریش کو علم کی بنیاد پر جھنجوڑا۔ اللہ کی طرف سے علم سے بھری چھوٹی چھوٹی آیت نازل ہوئیں۔سورةاخلاص،العصر،الکافرون،الکوثر وغیرہ، جن میں عربوں کوکائنات کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کو اللہ نے بنایاہے۔ پھر سرداران قریش سے کہا،جس اللہ نے کائنات کو بنایا ہے پھر تم اس کی عبادت کیوں نہیں کرتے ہو۔تم لوگوں نے اپنے اپنے قبیلوں کے بت بنائے ہوئے ہیں۔ حتہ کہ خانہ کعبہ جس کو حضرت ابراھیم ؑ نے خالص اللہ کی عبادت کرنے کے لیے بنایا تھا۔ اس میں تم نے تین سو ساٹھ بت رکھ دیے ہیں۔ رسول اللہ نے سردارانِ قریش سے کہا کہ میں تمھیں ایک کلمے کی تعلیم دیتا ہوں ۔ اگر تم میرے اس کلمے پر عمل کرو، تو عرب اور عجم تمہارے مطیع ہو جائیں۔ پھر جب عرب اس پر عمل کرنے لگے۔ تو صحرا نشین بدو اوراُونٹوں کے چرانے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا۔ پھر اَن پڑھ اُجنڈ عربوں نے دنیا کو تہذیب، تمدن، اخلاق اور حکمرانی کے طریقے سکھائے۔ جب مسلمان اس دنیا کے حکمران بنے تو دنیا میں ہر طرف علم کی نہریںبہنے لگیں۔ علم کی افادیت کی مثال دی جائے تو مدینہ میں کافر، قیدیوں کو رسول اللہ نے مسلمان بچوں کو پڑھنا سکھانے پر رہائی دی۔خلفاءراشدین ؓ نے اپنے دور حکومت میںعلم کوعام کیا گیا۔ کئی فیصلوں میں امت کی ماﺅں، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے رائے معلوم کر کے کئی اہم فیصلے کیے۔آج مغرب مسلمانوں پر عورتوں کے حقوق کے بارے میں سوال اُٹھاتے ہیں ۔جبکہ پندرہ سو سال پہلے اسلام نے عورتوں کو حقوق دیے ۔خلفاءنے عورتوں کی رائے کے مطابق فیصلے کیے۔ مغرب نے خود عورت کو گھر کی ملکہ کے رتبہ سے ہٹاکر شمعِ محفل بنا دیا ہے۔لعنت ہے
ایسی نام نہاد آزادی پر جس میں عور ت ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کے مقدس رشتوں ہٹا کر اسی بکاﺅ مال بنا دیا گیا۔خلفائے راشدینؓ کے دور میں قرآن کے علم کے مطابق فیصلے کرنے والے قاضیوں کو آزادی دی۔ حتہ کہ قاضی نے حضرت علیؓ کے مقابلہ میںایک یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ مسلم دور حکمرانی میںعلم کی روانی تھی۔ جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کر کے، مسلم حکومت ختم کی ۔تو اِس ان پڑھ، جہل اور علم دشمن نے مسلمانوں کے کتابوں کے ذخیرے کوکو آگ لگا دی۔ دریائے نیل میں اتنی کتابیں ڈالیں کہ اس کا پانی رک گیا۔ یہ وہ ہی کتابیں تھی جن پر عمل کر کے مسلم حکمران دنیا پر حکومت کرتے رہے۔مسلمانوں میں دینی اور دنیاوی علوم کے نام ور لوگ پیدا ہوئے۔جن میںمحدثینؒ جنہوں نے علم نصاب ایجاد کیا کہ جس میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے متعلق معلومات ملیں۔ دناوی علوم میںابن الہیشم،البیرونی،بو علی سینا،الکندی، الفاروبی، الخوارزی، ابن خلدون اور ابن بطوطہ جیسے لوگ شامل ہیں۔ان مسلمانوںہی کی کتابوں سے فاہدہ اُٹھا کر مغرب نے ترقی کی۔ جب علم اورکتابوں سے رشتہ ٹوٹا تو مسلم حکمران نے حق حکمرانی کھو دی۔ سپین جس پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ، وہ علم اور کتابوں کی وجہ سے تھی۔اس زمانے میں مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ مفت نصابی کتابیں مہیا کی جاتی تھی۔ بادشاہوں نے بڑئی بڑی لائیبریاں بنائی تھیں۔امرا نے بھی اسی پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سلطنت میں اسی طرح کی کئی ذاتی لائبیریں بنائی۔ جس میں پڑھے والوں کو تمام صعولتیں مہیا تھیں۔علم کی بنیاد پر مسلمان دنیا میں ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کرتے رہے۔ جب تعلیم سے رشتہ ناتہ ٹوٹا، تو پھر مسلمانوں سے حکومتیں بھی چھن گئیں اور مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار بھی ہو گئے۔اسی پر تو شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے کہا تھا کہ:۔
مگر وہ علم کی موتی، کتابیں اپنے آبا کی۔
جو دکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ۔
اب بھی مسلمان جدید تعلیم حاصل کر کے اور اللہ کے بتائے ہوئے قدیم طریقوں پر عمل کر کے، جیسے اپنے پہلے دور میں عمل کیا تھا، دنیا میں اپناکھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ تو یہ ہے علم کی حقیقت!
ا