تحریر۔۔۔ ظہیرالدین بابر
یہ بات سچ ہے کہ ذہانت ،عقل اور شعور انسان علم کی بدولت ہی سیکھتا ہے ۔البرٹ آئن سٹائن نے کیا خوب کہا ہے کہ !اگر مچھلی کو یہ کہا جائے کہ وہ درخت پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو مچھلی بیوقوفانہ اندازمیں ساری عمر درخت پر چڑھنے کی ناکام کوشش کرتی رہے گی جبکہ حقیقت میں اسکے پاس ایسی کوئی صلاحیت موجود نہ ہے، عرصہ دراز سے ہمارا نظام تعلیم بھی کچھ یہی کام سرانجام دے رہا ہے جس پر آج میں تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے سنجیدہ ہو کر سوچ سکیںاور انکی بہتر زندگی کے لئے کچھ مفید معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔اب بات ہو جائے ہمارے نظام تعلیم کی ،کیا بات ہے اس نظام تعلیم کی!ہر سال نئی کتابیں لو اور ان کو رٹ لو ،بیٹا پسند نہیں ہیں تو کیا ہوا،امتحان میں تو لکھنا ہی ہے کونسی نئی بات ہے ،یہ سب نمبرز کی گیم ہے،اس سے کیا ہوگا ؟زیادہ نمبرز آئینگے تو اچھی نوکری مل جائے گی ،اس سے کیا ہوگا؟اس سے آپ پیسے کماﺅ گے اور ایک کامیاب انسان بن جاﺅ گے ۔واہ جی واہ!کیا طریقہ ہے پیسے کمانے کا اور کامیاب انسان بننے کا ،ہمارانظام تعلیم کچھ حد تک انتہائی فرسودہ اور غیر دلچسپ ہے جوکہ طلباءکیلئے غیر موثر ثابت ہو رہا ہے۔اس نظام میں کوئی طالبِ علم نئی تخلیق یا کچھ نیا کرنے کی کوشش میں کوئی توڑپھوڑ کرتا ہے تو اسکی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے والدین کوا سکی شکائیت کی جاتی ہے جس سے طالبعلم کی تخلیقی صلاحیت کو دبادیا جاتا ہے۔ہر انسان کے سوچنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت ہر ایک سے مختلف ہے جبکہ ا س حقیت کو رد کرتے ہوئے ہمارانظام تعلیم روائتی طریقہ سے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔طلبا کو مجبور کیا جاتاہے کی وہ اس نظام کے تحت ہی کامیابی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں ،اس طرح بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو رد کرتے ہوئے انہیں مارکس کی دوڑ میں لگایا جا رہا ہے اور طلبا کی قابلیت کے معیار کا پیمانہ امتحانات میں حاصل کیئے گئے مارکس سے کیا جاتا ہے،جس سے طلبا ءکی قابلیت کو یکساں نظرانداز کیا جاتاہے۔
ہمارے ہاں!سکولز میں رٹہ کلچر کی پریکٹس ہوتی ہے،بچوں کو سائنس اور آرٹس کے مضامین پڑھائے جانے کے بعد انکو سوالات کے جوابات کو تیار کرنے کے لئے کہا جاتاہے۔کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ طلبا کوپریکٹیکل ورک کےلئے تیارکیا جائے تعلیم کا معیار چند اصولوں پر مرتب کر لیا گیا ہے ،رٹہ لگواو ،ہوم ورک دو اور نوٹ بک چیک کرو،کبھی بھی کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ طلبا پڑھ رہے ہیں اس سے انکو مستقبل میں فائدہ ہوگا کہ نہیں یا وہ ایک مشین کی طرح روزانہ اپنا کام تو کرلیتے ہیں لیکن اپنے ذہن کی تشکیل نہیں کرپارہے جو کہ تعلیم کا ایک اہم مقصد اور سکول کا فریضہ ہے۔طلبا کی ترقی اورکامیابی کاعنصر صرف وسیع تر نصاب اورانکی دلچسپی کے مطابق ماہرانہ تدریسی عمل کی بدولت ہی ممکن ہے ،یہ ہمارے معاشرے کا المیہ بن گیا ہے کہ طلباءکو چند مضامین جن میں سائنس ،میڈیکل اورانجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں ان ہی مضامین کومنتخب کرنے پر جبرا©©© مجبورکیا جاتاہے جبکہ ان مضامین کو جبرا پڑھانے سے طلبا کی ذہنی قابلیت ماند پڑجاتی ہے جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں ہو رہا ہے۔میری زندگی کا بیشتر حصہ شعبہ تدریس سے منسلک ہے،ذاتی تحقیق کے بعد میں یہ بات کہنے پر حق با جانب ہو ںکہ جو عرصہ میں بیرون ملک درس و تدریس کی غرض سے مقیم رہاہوںپاکستان کے روائتی نظام تعلیم اور بیرن ملک کے تعلیمی نظام کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد مجبورا©©© کہنا پڑھ رہا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں استاتذہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہوتا ہے وہی کچھ طلبا کو رٹاکر اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں لیکن جب بات ہو سائنسی مضامین کو پڑھنے اور سیکھنے کی تو ساری دنیا میں سائنسی مضامین کو سنجیدگی کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی بنیادپر پڑھایا جاتا ہے طلباءکو وسیع تر مواقع مہیا کئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروکار لاتے ہوئے دلچسپی کے ساتھ ان مضامین کو اپنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سائنسی ترقی کا موجد بنیں جس سے قوم کی خدمت کرسکیںہمارے ملک کی کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے ،طلبا کو رٹہ کی بنیاد پر سائنسی مضامین پڑھائے جاتے ہیں ہمارے ملک میں سائنسی مضامین کو پڑھانے کا فقدان بھی پایاجاتا ہے اور دوسرا یہ کہ طلبا ءکو انکی اپنی قابلیت کے مطابق تجرباتی صلاحیت کو بروکارلانے کے مواقع بھی نہیںدیے جاتے بلکہ وہی ایک روائتی طریقہ تعلیم جس کے تحت پورا نظام جمود کی صورت میںٹھہراو کا شکا ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں طلباءکا سائنسدان بننے کا رجحان بہت کم ہے۔
ہماری یہ سوچ بن چکی ہے کہ ہمارے سکولز تربیت گاہ کی بجائے بچو ں کو اچھے مارکس لے کر دینے والے کارخانے بن چکے ہیں جہان بچوں کی تخلیقی تربیت کی بجائے انکو پیسے کمانے والی مشین بنایا جارہا ہے ۔اچھے مارکس لینے اور زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں ہم یہ بھول چکے ہیں کہ یہ بے رحم نظام تعلیم کس طرح ہمارے معاشرے پر منفی اثر ات مرتب کر رہا ہے ہم لوگوں نے بچوں کی تعلیم کے ساتھ اپنے مادی فوائد اس قدر وابستہ کر رکھے ہیں کہ ہم نے تعلیم کو بچوں پر اسلئے فرض کر دیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ اچھے مارکس لے جس سے ایک اچھی نوکری مل جائے پھر بنک سے قرض لے کر ایک گاڑی خریدی جائے پھر یہ بھی ہو سکے کہ زندگی بھر کی خوشیاں گروی رکھ کے ساری زندگی کی اقساط پر ایک گھر خریدا جاسکے ۔واہ !رے قسمت !بد قسمتی تو یہ ہے کہ جو لوگ محنت کر کے اچھے مارکس لا کر اچھی نوکری کی تلاش میں دن رات رٹہ بازی کرتے رہتے ہیں آخر کاروہ جس ادارہ میں ملازمت اختیار کرتے ہیں اسکا سربراہ اپنے دور تعلیم میں پڑھائی کے اعتبار سے اوسط درجے کا طالب علم رہا ہوتا ہے،ہمارا تعلیمی نظام مکینکل سسٹم کی طرح کام کر رہا ہے اسے ہنگامی بنیادوں پر تبدیل کیا جانا چاہیے اس نظام کو انسانی طرز کے مطابق ڈیزائن کیا جانا چاہیے جس میں طلبا اور تعلیم کے درمیان زیادہ سے زیادہ ربط ہو اور وہ طلبا ءکو مکمل طور پر یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے مطابق اپنی پسند کے مضامین کا انتخاب کر سکیں،علم ہی طلباءمیں شعور ،ادراک ،آگاہی نیز فکرو نظرکی دولت کاباعث بنتا ہے ،کل تک تو حصول علم کا مقصد تعمیر انسانی تھا لیکن آج یہ مقصد تبدیل ہو کر نمبرات اور مارکس شیٹ پر محیط ہو کر رہ گیا ہے۔مگر افسوس صد افسوس! ہمارے ملک کے تعلیمی نظام پر مفاد پرسرست ٹولہ قصر شاہی کی طرح قابض ہو چکا ہے جن کے نزدیک اس عظیم پیشہ کی قدروقیمت نہ ہے بلکہ انہوں نے تعلیم کو محض چار کتابوں پر پابند کر دیا ے ،جس سے طلبا ءکی خفییہ صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہے آجکل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشہ تدریس بھی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے جس سے محکمہ تعیلمات، اسکول انتظامیہ اور معاشرہ بھی ان چار کتابوں پر قانع کر بیٹھا ہے جس سے تعلیمی نظام کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز ہو چکا ہے جس سے رسوائی کے علاوہ شائد ہی کچھ عنائےت ہو ۔پھر بات وہی ہے کہ ! مچھلی کا درخت پر چڑھنا اور طلباءکو اس فرسودہ روائتی نظام تعلیم کے طابع کرنا دونوں البرٹ آئن سٹائن کے قول کی عکاسی کرتا ہے۔