پیمرا آرڈیننس 2002کی منظوری کے بعد پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز کو لائسنس جاری کیے جانے لگے اور تھوڑے ہی عرصے میں ملک میں بہت سے نجی چینلز نے لوگوں کو باخبر رکھنے کے لیے اپنی خدمات دینا شروع کر دی۔اس وقت میڈیا کو یوں مکمل آزادی دینا ضروری بھی تھا کیونکہ اس وقت لوگ حکومت کے زیر اثرایک ہی سرکاری چینل کو دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے تھے اور کوئی دوسرا متبادل بھی نہیں تھامگر پیمرا نے سرمایہ کاروں کوچینلز کھولنے کے لیے لائسنس جاری کر کے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو بہت وسعت دے دی جو ایک مثبت عمل ثابت ہوا ۔لوگ کو دنیا سے با خبر رکھنے کے لیے میڈیا صحافت کے میدان میں بہت ترقی کرتے ہوئے معیاری خدمات کو یقینی بناتا گیا جس سے عوام کا میڈیا پر اعتبار بڑھتا ہی گیا۔میڈیا نے بہت تھوڑے ہی عرصے میں ملک میں اپنی ایک پہچان بنا لی اور لوگوں کو دنیا سے با خبر رکھنے کے لیے اپنی خدمات دینا شروع کر دی جس سے لوگوں میں آگاہی کا عنصر نظر آیا اور وہ دنیا سے واقف ہونا شروع ہو گئے۔2002سے لے کر 2010یعنی ان آٹھ سالوں میں پاکستان میں 90کے قریب چینلز نے لائیسنس حاصل کیا ان چینلز میں 24نیوز ،48انٹرٹینمنٹ ،دو سپورٹس،دو تعلیمی، ایک صحت اور ایک زرعی چینل ہے۔
اس دور کو میڈیا کی ترقی کا دور سمجھا جانے لگا کیونکہ اس عرصے کے دوران میڈیا نے پاکستانی عوام کی بہتر طرح سے حدمت کی اور لوگوں کو ہمیشہ سچ اور حقیقت بتائی۔اسی لیے اس دور میں لوگوں کا میڈیا پر اعتبار بڑھ گیا تھا جبکہ چینلز کی آپس میں مقابلہ بازی بھی بہت کم تھی جس کی وجہ سے رپورٹنگ اور براڈکاسٹنگ کا ایک خاص معیار تھا جس کی وجہ سے پاکستانی میڈیا کو بین الاقوامی میڈیا میں بھی اچھی پزیرائی حاصل تھی ۔
اب اگر بات کی جائے کہ حالیہ دور میں میڈیا کی کارکردگی کیا ہے؟اسی سوال کو میں نے مخصوص لوگوں پر مشتمل ایک گروپ کے سامنے رکھا جس میں سے 80%کا کہنا تھا کہ حالیہ دور میں میڈیا کی کارکردگی انتہائی شرم ناک ہیں انہیں ’خبر‘ کی تعریف ہی نہیں معلوم کہ خبر ہوتی کیا ہے کسی کی بلی مر جائے تو یہ بریکنگ چلانا شروع کر دیتے ہیں ۔امریکہ سے تعلق رکھنے والے باباء صحافت ’’چارلس ائے ڈانا‘‘نے خبر کی تعریف کچھ اس طرح کی تھی کہ’اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں مگر جب انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ ایک خبر ہو گی‘اس تعریف سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روزمرہ کی سرگرمی خبر نہیں ہو سکتی بلکہ خبر تو ایک انوکھی اور نئی سرگرمی کو کہا جا سکتا ہے۔اب آج کل کے میڈیا کو دیکھ لیں کیسی کیسی بے تکی اور بے ڈنگھی بریکنگ نیوز دھڑا دھر آ رہی ہوتی ہیں چینلز کہ رہے ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم نے فلاں واردات کی سی سی ٹی وی حاصل کر لی ۔اب ان چینلز کو کون سمجھائے کو یہ فائرنگ ،قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں کی سی سی ٹی وی سب سے پہلے حاصل کر کے کون سا تیر مار لیا ہے۔جنوری کی بات ہے میں کراچی گیا ہوا تھا اور ایک دن گھر بیٹھا خبریں سن رہا تھاکی اچانک ایک نیوز چینل پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہو گئی کہ ناگن چورنگی کے قریب پولیس پر ہونے والے فائرنگ کے واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سب سے پہلے ہم نے حاصل کر لی۔وہ دل خراش ویڈیو بار بار چلائی جا رہی تھی جس میں دہ پولیس اہلکار موٹر سائیکل پر بیٹھے جا رہے تھے کہ اتنے میں ٹارگٹ کلرز نے فائرنگ شروع کر دی جس سے موٹر سائکل پر پیچھے بیٹھا پولیس اہلکار سڑک پر گر گیا اور کچھ ہی دیر میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ اب اس نیوز چینل والوں سے کوئی پوچھے کس قانون اور ضابطے کے تحت ایسی لرزہ خیز ویڈیوز چلائی جا رہی ہے عام عوام کے علاوہ ان پولیس اہلکاروں کے گھر والوں نے اگر یہ ویڈیوز دیکھ لی تو ان پر کیا گزرے گی؟ان سوال کا جواب کسی میڈیا پرسن کے پاس موجود نہیں بس ریٹنگ کی دور میں پیمرا آرڈینینس کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے ۔یہ تو صرف ایک مثال بیان کی ہے اس کے علاوہ ممبئی حملوں اوراجمل قصاب کے متعلق میڈیا کی کوریج ،دو مئی اسامہ آپریشن اوردہشت گردی کی رپورٹنگ بہت غلط طریقے سے کی گئی۔دہشت گردی کی رپورٹنگ ہر نیوز چینل بہت گھٹیا طریقے سے کر رہا ہے کیونکہ ہر چینل ریٹنگ کے چکر میں لوگوں کی لاشیں،خون،اور جسم کے بکھرے حصے لائیو دکھانا شروع ہو جاتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔دہشت گردی اور فائرنگ کے واقعات برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہوتے ہیں مگر آج تک آپ نے سی این این اور بی بی سی پر لاش ،لوگوں کا خون یا جسم کے بکھرے ہوئے حصے نہیں دیکھے ہوں گے کیونکہ یہ چینلز ریٹنگز نہیں بلکہ معیار کو مد نظر رکھتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کی انہی حرکتوں کی وجہ سے لوگوں کا میڈیا سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔چند عرصہ پہلے میڈیا بڑے احسن طریقے سے اپنی صحافتی ذمی داریاں نبھا رہا تھا تب لوگ اس کو ایک خبروں کا ایک مصدقہ ذریعہ سمجھتے تھے مگر جب سے تمام چینلز ریٹنگ کی دور میں پڑے ہیں لوگوں کا ان سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ میڈیا نے پچھلے دس سالوں میں بہت ترقی کی اور معاشرے کو نکھارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا مگر اب ویور شپ کے چکر میں تمام قوانین و ضوابط کو توڑتے ہوئے ہر واقعے کی انتہائی گٹھیا طریقے سے کوریج کی جاتی ہے جس کی مثالیں میں پہلے پیش کر چکا ہوں اس لیے اب اگر لوگوں کا اعتبار مکمل طور پر میڈیا سے اٹھ گیا تو شاہد یہ دہائی میڈیا کی ترقی کے بجائے تنزلی کی ثابت ہوں کیونکہ عوام کو اباچھے اور برے میں فرق کرنا کا شعور حاصل ہو گیا ہے اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا نے جنم لینے کے بعدترقی کے مقام سے واپس یو ٹرن لیتے ہوئے تنزمی کی طرف گامزن ہو رہا ہے جسے بچانے کے لیے میڈیا کے مثبت صحافتی اقدامات کرنے ہوں گے اور احسن طریقوں سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں گی تا کہ کھویا ہوا مقام دوبارہ حاڈل کر سکے