تحریر۔۔۔ ڈاکٹرفیاض احمد
بادشاہ : وزیر ہم اپنی عوام کا احوال دریافت کرنا چاہتا ہوں
وزیر:جی بادشاہ سلامت ۔۔۔۔۔جو حکم ہو
بادشاہ: تو پھر شاہی دورے کی تیاری کی جائے
وزیر:جو حکم میرے آقا۔۔۔۔ اگر جان کی پناہ ہوتو کچھ عرض کروں
بادشاہ: بولو
وزیر:اگر ہم سادگی سے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا
بادشاہ:بات تو پتے کی ہے مگر یہ کیسے ممکن ہے
وزیر:اس کا میں بندوبست کرتا ہوں آپ بے فکر ہو جائیں
بادشاہ:مگر جلدی
وزیر:جو حکم میرے آقا
بادشاہ:وزیر کب جانا ہے
وزیر:کل صبح
بادشاہ:کل صبح،،،،،،، واقعی
وزیر:جی بادشاہ سلامت،،،،،، واقعی،،،،،، کل صبح
وزیر:اگلی صبح۔۔۔۔۔ بادشاہ سلامت سب انتظامات تیار ہیں بس آپ کا انتظار ہے آپ جلدی سے آ جائیں
بادشاہ:میں ابھی آتا ہوں
وزیر :تمام سپاہیوں سے مخاطب ہو کر ۔۔۔۔۔۔ جلدی سے تیار ہو جاﺅ ۔۔۔۔۔ بادشاہ سلامت تشریف لارہے ہیں
سپاہی:بادشاہ سلامت آ گئے
وزیر :چلنے کے لئے سب کو بولتا ہے،،،،،، چلو سفر شروع کرو
بادشاہ:وزیر کون سا راستہ اختیار کرنا ہے
وزیر :جنگل والا
بادشاہ:جنگل والاجنگل سے گزرتے ہوئے بادشاہ کی نظر اچانک ایک فقیر پر پڑی اور بادشاہ نے سپاہی کو حکم دیا کہ فقیر کو پکڑ کر لے آﺅ
سپاہی:جو حکم میرے آقا ۔۔۔۔۔ سپاہی فقیر کو پکڑ کر لے آیا
بادشاہ:اے فقیر تجھے پتہ ہے کہ میں کون ہوں
فقیر:مجھے نہیں پتہ
بادشاہ:میں وقت کا بادشاہ ہوں اور ۔۔۔۔۔ بتائیں کیا حال ہے اور زندگی کیسی گزر رہی ہے
فقیر:بادشاہ سے مخاطب ہو کر جواب دیا۔۔۔۔۔۔ کوئی کسی کا نہیں ہے
بادشاہ:کیا مطلب ہے
فقیر:کوئی مطلب نہیں ہے
بادشاہ:سپاہی اس کو پکڑ لو جنگل میں رہنے سے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے کچھ دن شاہی مہمان رکھیں گے تو طبیعت سنبھل جائے گی
وزیر :جو حکم میرے آقا ۔۔۔۔ دورے سے واپسی پر
بادشاہ:واپس آنے کے بعد ۔۔۔۔۔ وزیر ۔۔۔۔ فقیر کی شاہی خاطر تواضع کی جائے
وزیر :جو حکم میرے آقا
بادشاہ:چند دن کے بعد وزیر سے۔۔۔۔۔۔ فقیر کو پیش کرو
وزیر :فقیر کو لاتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ بادشاہ سلامت فقیر حاضر ہے
بادشاہ:کیا حال ہے
فقیر:سب ٹھیک ہے مگر کوئی کسی کا نہیں ہے
بادشاہ:یہ پاگل ہے اس کو جنگل میں چھوڑ آﺅ
وزیر :جو حکم میرے آقا ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ وزیر فقیر کو جنگل میں چھوڑ آیا۔۔۔۔ چند روز بعد
سپاہی:بادشاہ آپ کا بیٹا بے ہوش ہو گیا ہے
بادشاہ:بھاگتے ہوئے اپنے بیٹے کے پاس پہنچا اور زور زور سے رونے لگا۔ چند لمحوں کے بعد وزیر کو آواز دی
وزیر:جی بادشاہ سلامت
بادشاہ:دنیا کے سارے حکیموں اور طبیبوں کو حاضر کردو
جو حکم بادشاہ سلامت
بادشاہ:اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر نہایت افسوس زدہ ہو گیا
سپاہی:بادشاہ سلامت ۔۔۔ وزیر حکیموں اور طبیبوں کے ساتھ آ رہا ہے
بادشاہ:حکیموں اور طبیبوں سے مخاطب ہو کر ۔۔۔۔ میرے لخت جگر کو تندرست کرو اور منہ مانگا انعام حاصل کرو
حکماءاور ا طبائ: چند لمحوں کے بعد ۔۔۔۔۔ بادشاہ سلامت یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے کسی فقیر کو لے آئیں
سپاہی:اتنے میں ایک سپاہی بولا۔۔۔۔ بادشاہ سلامت۔۔۔ فقیر۔۔۔۔ فقیر کو تو ہم نے جنگل میڈ چھوڑا تھا
بادشاہ:جلدی جاﺅ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اس فقیر کو پکڑ کر لے آﺅ
سپاہی :سپاہی اپنے تین چار ساتھیوں کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہوااور جنگل سے فقیر کو پکڑ کر لے آیااور بادشاہ کی خدمت میں حاضر کیا
بادشاہ:فقیر خدا کے واسطے میرے بچے کو بچا لو
فقیر:ایک مٹھائی کا ڈبہ منگواﺅ اور کمرے سے سارے نکل جاﺅ
بادشاہ:فقیر کے حکم کی فوراً تکمیل کی جائے اور مٹھائی کا ڈبہ فقیر کو پیش کیا جائے
فقیر:فقیر نے مٹھائی کا ڈبہ پکڑا اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنے رب سے بادشاہ کے بیٹے کی صحت یابی کی دعا کی چند لمحوں کے بعد
بادشاہ کا بیٹا:کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھا
فقیر:بیٹا کچھ دیر لیٹے رہو۔۔۔۔جب تک میں نا کہوں باہر مت آنا
بادشاہ کا بیٹا:جو حکم
فقیر:مٹھائی کا ڈبہ لے کر باہر آیا اور بولا بادشاہ سلامت اس ڈبے میں سے جو پہلا لڈو کھاے گا وہ مر جاے گا اور آپ کا بیٹا زندہ ہو جاے گا
بادشاہ:ڈبے کو پکڑ کر سب سے التجا کی کہ کوئی اس ڈبے سے پہلا لڈو اٹھا کے کھالے لیکن سب نے انکار کر دیا حتیٰ کہ بادشاہ کی بیوی نے بھی
فقیر: غصے سے ڈبہ پکڑ تے ہوے بولا اس میں کچھ نہیں ہے یہ پہلا لڈو میں کھا رہا ہوں فقیر نے لڈو کھالیا
بادشاہ:کمرے میں بھاگتے ہوئے داخل ہوا اور دیکھا کہ اس کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے اور فقیر بھی زندہ ہے
فقیر: میں نے دعا کی اور تمھارا بیٹا ٹھیک ہو گیا لیکن یہ لڈو آپ کی بات کا جواب ہے جو میں کہتا تھا کہ کوئی کسی کا نہیں آپ نے اپنے بچے کیلئے سب سے بھیک مانگی لیکن کسی نے آپ کی مدد نہ کی حتیٰ کہ آپ کی بیوی نے بھی انکار کر دیا اور نے خود بھی نہیں کھایا تو اس سے کہا ظاہر ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں بادشاہ
بادشاہ:یہ سب سن کر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور سب کچھ چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گیا