تحریر :مہرسلطان محمود
سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر اصلی اسٹیبلشمنٹ مراد بیوروکریسی سدا حکومت کرتی ہے انگریز تو برصغیر کو آزادی دیکر چلاگیامگراس کے واضع کردہ مکڑی کے جالےکی مانند سسٹم کےبے تاج بادشاہوں نے عوام کو اس جالے میں جکڑکر کچومر نکالنے کاسلسلہ ابھی تک بند نہی کیاہے ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کرپشن ہر روز گرگٹ کی مانند نت نئے نعروں کے بعد تبدیلی سرکارکی آمد کابگل بجایاگیاعوام کو سہانے خواب دکھاۓ گئے چند دن کی تکلیف برداشت کرنے کیلیے ذہنی طور پر تیارکیاگیا ایک سال گزر گیاہے مہنگائی اپنی جگہ مگر گڈگورننس کے لفظوں کی حقیقی مٹھاس سے عوام ابھی کوسوں دور ہے گڈگورننس میں بہتری سے ہی معاشرہ مثبت طور پر پھل پھول کر پروان چڑھتاہے اسکے متعدد روٹس اور شاخیں ہوتی ہیں جن کو وقت کے ساتھ تراشناخراشنا انتہائی ضروری ہوتاہے ورنہ وہ بہت بھیانک اثرات مرتب کرکے تباہی پیداکرنے کاموجب بنتاہے کچھ ایسی ہی صورتحال ضلع قصور کی ہوچکی ہے تبدیلی کے نام پر ووٹ لیکر وزارتوں پر براجمان ہونیوالے چند افراد نے اقرباپروری کو فروغ دینے کا دھندہ زوروشورسے ایف سولہ فائٹر طیارے کی مانند چلارکھاہے لفظوں کے ہیر پھیر میں ماہر سیاستدانوں نے پہلے بھی کوئی دوررس نتائج مرتب نہی ہونے دیئے نہ اب ہونے دے رہے ہیں پسند نہ پسند کامہلک وائرس دوبارہ اپنے پنجے گاڑ چکاہے قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے ہٹ کر سول انتظامیہ کی کارکردگی انتہائی غیرتسلی بخش ہے جب سے موجودہ سربراہ ادارہ نے اس ضلع میں قدم رکھے ہیں ضلع کی حالت پہیہ جام ہڑتال کی جیسی ہوئی پڑی ہے ایک کام بھی ڈھنگ سے نہی ہورہاہے کلین اینڈ گرین مہم نعروں میں دفن ہوچکی ہے پورا ضلع کراچی کی طرح کچرامنڈی میں تبدیل ہے کوڑاکرکٹ سیورج کاپانی ضلعی انتظامیہ کو منہ چڑارہاہے بری گڈگورننس کی حالت زارپرسینکڑوں خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں مگر ایکشن ندارد ہے ہر طرف کرپشن دونمبری سست روی ودیگر عوامل ماضی کی طرح جوں کے توں ہیں محکمہ ہیلتھ بے تحاشامسائل کاشکار ضلعی ایڈمنسٹریٹر فقط ایک کاغذی میٹنگ کے بعد خودنمائی کے خول سے باہر نکلنااپنی توہین سمجھتے ہیں متعدد شکایات معہ ثبوت لیکن کھوہ کھاتے معہ وژن تبدیلی سرکار عوام بیزار ہوچکی ہے محکمہ ہیلتھ کا سالانہ بجٹ منظوری کیلیے سول بادشاہ سے رحم کی اپیل لئیے میز پر دھکے کھارہاہے بے ڈاکٹرز کی کمی عوام پریشان ڈاکٹرز کے ساتھ جھگڑے معمول مگر انٹرویوز کیلیے وقت نہی بے اعتناعی اتنی رتی بھر خیال نہی زندگی بچانے والی ادویات کاسٹاک مسلسل اختتام پذیر ہورہاہے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ ٹوٹے پھوٹےنظام کو دھکالگاکر چلانے میں بھی دشواری جان بوجھ کر پیدا کردی گئی ہے محکمہ تعلیم کی صورتحال عجیب کی قسم کی افسانوی کہانیوں کے ساتھ لوگوں کو بیوقوف بناکر شیخ چلی کے خواب دکھاچکی ہے پرائمری مڈل سکولز میں سویپر کا وجود ناہونے کے برابر تب صفائی ستھرائی کے 100فیصد نمبر کیسے ایل این ڈی ٹیسٹوں میں چارنمبریاں ملی بھگت سے مستقبل زیرو کرنے میں مگن متعلقہ سٹاف کو پھر بھی دیتے ہیں ڈپٹی کمشنر شاباش ،محکمہ مال میں کرپشن سے بھی چار قدم آگے کے قصے بغیر پیسے کوئی کام نہی ہورہاہے پٹواری کی رپورٹس طلب کی جاتی ہیں مگر پھر فائلوں کے نیچے دب جاتی ہیں وجہ آخر سامنے آہی جاۓ گی اہل دانش بہتر سمجھتے ہیں پتہ نہی سختی رعب دبدبہ کس بلاکانام ہے ملازمین پہلے رونے والی صورت لیکر محل بے اعتناعی سے باہر نکلتے تھے شاید اب عادی یاپھر حقیقت کوتسلیم کرکے سمجھوتاکرچکے ہیں ہر کام پر کمیٹی بناکر کھڈے لائن لگادیاجاتاہے بادل نخواستہ کل کو ریاست کے نواب کانام کمیٹیوں والا پڑجاۓ کسی طرف بہتری کے آثار نظر خیر سے آتے نہی ہیں ناقدین توسمجھے تھے شاید کوئی انتہائی خوفناک زلزلہ ٹائپ تبدیلی آۓ گی مگر آنکھیں ترس گئیں دل کے ارماں چکناچور ہوگئے تبدیلی نہ آئی ایک منسٹر صاحب کہتے ہیں گلاس اٹھانے کاکہاتھامگر جگ اٹھالیاجاتاہے دوسرا منسٹر گھر سے کھاناکھاکرراضی ہوکرچلاجاتاہے عوام کےمقدر میں جوں کی توں زلالت ہے ہر کام ادھورہ ہے ہر فائل پر کمیٹی بناکر بظاہر جان چھڑالیجاتی ہے بقول ماتحت سٹاف کے نہ کم کرنااے نہ کرن دینا اے یاپھر کوئی اور مقصد ہوگا عوام بہت سیانے ہیں کام میں روڑے اٹکانے کی وجہ خوب سمجھتے ہیں قابلیت جس کادعوی بہت بلند تھا کام جلدی ہونے چاہیے تھے مگر صورتحال الٹ ہے بڑے فخریہ انداز میں کہاجاتاہے جہاں پر میں رہ کر آیاہوں وہ تو ادھر نہی آۓ گا انتظامی امور کی اہم سیٹیں اچھے رویے کی وجہ سے خالی ہیں جو تھے وہ جان بچاکر تبدیلی کے مبینہ زلزلہ سے بھاگ گئے ہیں کوئی ایک کام بھی تبدیلی کے معیار پر پورا نہی اترتاہے ماسواۓ رعب جھاڑنے انتہائی بری گڈگورننس ضلع کی عوام کا نصیب ہے مگر سیاستدانوں وافسران کے چولہے سلامت رہیں عوام کے پہلے سے ہی بجھے ہوۓ ہیں کوئی ایک آدھ چنگاری باقی ہے اسکی خیر کبھی کبھی چنگاری جلاکر راکھ کردیتی ہے مگر اس بے حس قوم میں وہ سوچ کہاں جو ظلم کے سامنے کھڑی ہووسیم اکرم پلس کابینہ کے تگڑے وزرا کی لابنگ کے سامنے بے بس ہیں چیف سیکرٹری پنجاب بھی شاید اپنے فرائض پر نظر ثانی کرکے سیٹ بچانا فی الحال بہتر سمجھتے ہیں پنجاب بھر کی بیوروکریسی میں تعریف میں بدقسمتی سے سول آمر کے حق میں ایک لفظ بھی سننے کو نہی ملاہے چند خوشاآمدیوں کے علاوہ جو دوسرے والی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا تعلق بتاکر پھولے نہی سماتے ہیں کہتے ہیں ایک منسٹر صاحب چونکہ موصوف کے عزیز کے پیٹی بھائی ہیں گلشن کو تہس نہس کرنے کی کھلی چھٹیاں دے رکھی ہیں مقامی حکمران جماعت اختلافات کا شکار ہے جس کا زور ہے وہ دوسروں کی گردن دباۓ بیٹھاہے آخر پر رحم کریں یہ عناصر ضلع پر وقت بدلتے دیرنہی لگتی ہے آج اقتدار ہے کل کو نہی ہوگا وقت کے کچھ فرعون بھی اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھ کر عوام کو پیروں تلے روندنے وگولیوں سے بھون ڈالنے والے نشان عبرت بنے ہوۓ ہیں