تحریر: رانااعجازحسین چوہان
اولیاءاللہ کی نسبت سے مشہور تاریخی شہر ملتان نہ صرف جنوبی پنجاب کا مرکزی شہر ہے بلکہ اسے قدیم و جدید امتزاج کے ساتھ پاکستان بھر میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ملتان کا صرف سوہن حلوہ ہی نہیں یہاں کے لوگ بھی آموں کی طرح میٹھے شیریں گفتارہیں، اور اپنے ملک سے والہانہ عقیدت رکھنے والے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی خصوصی ہدایت پر جنوبی پنجاب میں ادب و ثقافت کے فروغ اور شعرائ،ادیب اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ملتان آرٹس کونسل میں سرائیکی امن مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ مشاعرے کی پروقار تقریب کی صدارت کمشنر ملتان ڈویژن افتخار علی سہو نے کی، جبکہ سرائیکی امن مشاعرے میں جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے نامور سرائیکی شعراءاور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جبکہ ملتان کے علاوہ مظفر گڑھ، کوٹ ادو، لیہ، تونسہ شریف اور ڈیرہ غازی خان سے بھی سامعین کی بڑی تعداد شریک ہوئی، سرائیکی امن مشاعرہ میں نامور سرائیکی شاعرشاکر شجاع آبادی،عزیز شاہد اور دیگر نے اپنے کلام سے سامعین کے دل موہ لئے، اور کامیاب سرائیکی مشاعرہ کے انعقاد میں سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب راجہ جہانگیر انور، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پنجاب کونسلز اف آرٹس رائے ثمن اور ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل چودھری طاہر محمود کی کاوشوں کو سراہا۔ کمشنر ملتان ڈویژن افتخار علی سہو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی آمن مشاعرہ کا انعقاد وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا علاقائی زبان کی ترویج اور سرائیکی زبان کے شعراءکی حوصلہ افزائی کے لیے ایک احسن اقدام ہے ۔ سرائیکی مشاعرہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ترجیحات کے مطابق جنوبی پنجاب کی ترقی اور اس علاقہ کے ادب و ثقافت کے فروغ میں خصوصی دلچسپی کا مظہر ہے۔ جنوبی پنجاب کا خطہ ادب و ثقافت کی قدیم تاریخی حیثیت کا حامل ہے، جہاں شاعری اورادب کے میدان میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے۔ اس خطہ کے قلمکار،فنکار ایک الگ شناخت اور حیثیت کے مالک ہیں اور نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک و ملت کی پہچان بن کر نام روشن کررہے ہیں۔ بلاشبہ شاعر اور ادیب معاشرے کے نباض ہوتے ہیں، معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اصلاح کی راہ دکھا تے ہیں،امن کا درس دینے والی شاعر ی اور تحریروں سے شدت پسند سوچ کو شکست دی جا سکتی ہے۔ کمشنر ملتان نے کہا کہ محرم الحرام کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کی ترجیحات کی روشنی میں ملتان آرٹس کونسل کو مزید فعال کیا جائے گا اور اس خطہ کے قلمکاروں،فنکاروں کو صلاحیتوں کے اظہار کے بھر پور مواقع دیئے جائیں گے۔ سرائیکی امن مشاعرہ اس خطے کے امن پسند عوام کا پیغام امن ہے جسے میڈیا نے نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ملک تک پہنچایا انہوں نے کہا کشمیر کے عوام پر ظلم وستم کے خاتمے اور کشمیر کی آزادی کے لیے پوری قوم یک جان و یک زبان ہے اور جنوبی پنجاب نے بھی اس مشاعرہ کے ذریعے کشمیریوںسے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سرائیکی امن مشاعرہ کی نظامت کے فرائض معروف ادبی شخصیت و ماہر تعلیم پروفیسر مقبول گیلانی نے سرانجام دیے جبکہ سرائیکی زبان میں کلام پیش کرنے والوں میں شاکر شجاعبادی،عزیز شاھد،ذکا اللہ انجم ملغانی،وسیم ممتاز،مخدوم اکبر ہاشمی،ثاقب خلیلی ،سلیم قیصر ،رضوانہ تبسم درانی ،عباس ملک ،فدا ملتانی،اجمل خاموش ،سحر سیال ،طفیل بلوچ ،بشیر ملتانی ،فہیم ممتاز ،قیصر عمران مگسی ،طفیل کھو کھر ،عابد غازل، تعظیم حسین ،محمد عتیق سوجھل،ماریہ فرحت ،مہر غفاری لک اورظفر مسکین شامل تھے ۔ اس موقع پر شعراءنے امن کے حوالے سے گرم گرم اشعار سنائے اور بھارتی مظالم کیخلاف کشمیر ی بھائیوں سے یکجہتی اور والہانہ محبت کا اظہار کیا۔
اے ربّ سوہنا تو میڈی سن اے مناجات مکمل
میڈے کشمیر توں ہن ٹال وی دے رات مکمل
…………( وسیم ممتاز )
امن دی پئی اے گٹھی اساں، امن اساڈے شریر وچ ھے
خمیر مٹی دا خود بولیندے امن اساڈے خمیر وچ ھے
…………( عباس ملک)
محبت جے گناہ ھے تاں میکوں ایندی سزا ڈیو¶
میڈے ساہ وی مکاڈیو، میکوں سولی چڑھا ڈیو¶
………… ( قیصر عمران مگسی)
امن دی گالی کروھا امن ہوسی وطن ہوسی
اے پھل بوٹے تے کلیاں چمن ہوسی وطن ہوسی
…………( طفیل احمد)
سرائیکی امن مشاعرے میں منفرد اسلوب کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی بھی شریک ہوئے اور اپنا سرائیکی کلام پڑھاجس سے سامعین بہت محفوظ ہوئے ۔ ان کی غزل
متاں غلطی ہووے ولا سوچناھے
الاون توں پہلے الا سوچناھے
اچانک جو آوے سیاہ رات غم دی
اساں واقعہ کربلا سوچناھے
بھلائی ھے ضروری علی دا وی قول اے
وفاواں دے بدلے دغا سوچنا ھے
خدائی دی خدمت خدا دی ھے خدمت
خدائی توں پہلے خدا سوچنا ھے
ڈساگیئن ایوب یعقوب شاکر
شکر کیویں کرنا ادا سوچناھے
یہ غزل سن کر سامعین بہت محفوظ ہوئے اور پورا ہال داد سے گونج اٹھا۔ شاکر شجاع آبادی بلاشبہ جنوبی پنجاب کے سرائیکی خطے کی پہچان ہیں ، انہیں سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔ کوئی انہیں سرائیکی زبان کا فیض احمد فیض کہتا ہے ، تو کسی نے انہیں شاعر اعظم کا خطاب دے رکھا ہے ۔ لیکن وہ خود کہتے ہیں، میں فیض احمد فیض ہوں نہ کوئی دوسرا شاعر، میں شاکر شجاع آبادی ہوں۔ میری گزارش ہے کہ مجھے صرف شاکر شجاع آبادی کہا جائے ۔ میں شاعر اعظم بھی نہیں ہوں، میری شاعری کا سفر جاری ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو ان کے خاندان میں کوئی شاعر تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی شاعر کی شاعری پڑھی تھی، بس ریڈیو پر کچھ شعراءکا کلام سنا ہوا تھا۔اگر میں نے دوسرے شعراءکو پڑھا ہوتا تو میں منفرد لہجے کا شاعر نہ ہوتا۔ میری انفرادیت کی وجہ شاید یہی ہے کہ میری شاعری میرے ذاتی غور و فکر، مشاہدے ، تجربے اور تخیل کی پیداوار ہے ۔ بلاشبہ شاکر شجاع آبادی فطری شاعر ہیں، جنہیں قدرت نے شاعری کی بے بہا صلاحیتیں دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ شاکر شجاع آبادی کی شاعری میں محبت کے لطیف جذبات بھی ملتے ہیں اور ظلم کے خلاف بغاوت کا درس بھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے رہیں، بلکہ جہد مسلسل سے اپنی تقدیر خود بنائیں۔ اپنا کلام پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
تو محنت کر تے محنت دا صلہ خدا جانے
تو ڈیوابال کے رکھ چا،ہو ا جانے خدا جانے
شاکر شجاع آبادی لسانی اور علاقائی تعصب کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھ میں کسی قسم کا تعصب نہیں ۔ میں نے اپنی شاعری میں ٹھیٹھ سرائیکی الفاظ کے بجائے آسان عام فہم الفاظ استعمال کئے ہیں، تاکہ دوسری زبانیں بولنے والے بھی میری شاعری سمجھ سکیں۔ زبانیں سب اچھی ہوتی ہیں، لیکن مادری زبان میٹھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے ہر قسم کے لسانی تعصب سے اجتناب برتتے ہوئے سرائیکی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی شاعری کی ہے ۔ ان کی غزلیں اور دوہڑے سرائیکی عوام میں بہت مقبول ہیں۔متنوع عوامی موضوعات،منفرد اسلوب،موزوں ترین الفاظ کا چنا¶، توانالب و لہجہ اورسوز گدازشاکر کی شاعری کی ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں دیگر سرائیکی شعراءسے ممتاز و منفرد بناتی ہیں۔شاکر جسمانی طور پر مفلوج و معذور ہے مگر ذہنی ، قلبی،رو حانی اور وجدانی سطح پر وہ اس قدرمضبوط و مستحکم ہے کہ اس کے باطنی سرچشموں سے پھوٹنے والی بھرپور، توانا اور تازہ کارشاعری پڑھنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔
بس خاص رعایت کیتی رکھ
میڈے حال تے رحمت کیتی رکھ
میکوں روٹی ڈے نہ ڈے مولا
میڈے نال محبت کیتی رکھ
شاکر شجاع آبادی سرائیکی شاعری کی تاریخ کا ایک گراں قدر اضافہ ہی نہیں بلکہ سرائیکی وسیب کے ماتھے کا جھومر بھی ہے ۔ شعراءاور سامعین نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی خصوصی ہدایت پر سرکاری سرپرستی میں منعقدہ سرائیکی امن مشاعرے کی اس کاوش کو سراہا اور کہا کہ ایسے مثبت اقدامات سے ماحول پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، سرائیکی ادب کے فروغ کے لیے ایسی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ تقریب کے آخر میں ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل چودھری طاہر محمود نے مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے قومی و علاقائی ادب و ثقافت کے فروغ کے لیے پنجاب حکومت کی سرپرستی میں بھر پور مواقع فراہم کرتے رہیں گے ۔ اس موقع پر ملتان ارٹس کونسل انتظامیہ کی کاوش کو سراہتے ہوئے کمشنر ملتان افتخار سہو اور ڈائریکٹر آرٹس کونسل چودھری طاہر محمود کو سرائیکی اجرک پہنائی گئی ۔ حاضرین کو سرائیکی امن مشاعرہ کی یہ عالیشان تقریب برسوں یاد رہے گی ، حاضرین کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملتان آرٹ کونسل میں وقتاً فوقتاً ایسی شاندار تقریبات کا اہتمام ہوتے رہنا چاہیے۔