تحریر ۔۔۔علی رضا رانا
زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے جو قومیں اپنی زبان ، تہذیب وثقافت اور ورثے کا خیال رکھتی ہے ، وہی دنیا میں اعلی مقام حاصل کرتی ہے ، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں ہوا۔ اردو پاکستان کی قومی زبان اور دنیا میں بولی جانے والی پہلی پانچ زبانوں میں سے ایک ہے ۔ مگر اس زبان کے ساتھ اپنے ہی لوگ سو تیلوں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور اگر یہی صورت حال بد ستور قائم رہی تو زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ اس اردو دشمنی میں عام آدمی عمومی اور ہمارا اشرفیہ طبقہ خصوصی کردار ادا کرر ہاہے ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں اردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا چاہتے تھے ۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے ، کیوں کہ تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اردو کے قومی زبان کی حیثیت سے نفاذ پر ہمیشہ زور دیا تھا ۔یہ موضوع اپنے اندر تاریخی طور پر بڑی وسعت رکھتا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف ہندوستان کے تاریخی پس منظر میں بحیثیت زبان اردو کا جائزہ لیا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اردو دشمنی نے کس طرح متحد ہ ہندستان کے مسلمانوں کی ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کے لئے ذہن سازی کی۔ اردو زبان کی اہمیت کیا ہے اور اس زبان کا قومی زبان کے طور پر نفاذ کیوں ضروری ہے ۔ اس سوال کا جواب ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہی کی ایک تقریر کے اقتباس سے ملتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ” کوئی رسائی حاصل نہیں ہوسکی جب تک بغیر ملکی سا لمیت اور فکری یکجہتی تک رسائی نہیں جاتی”۔
زبان کسی قوم کے افتخار کا نشان ہوتی ہے ۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ کسی قوم کی تہذیبی شناخت اور اس کی شخصیتی ترجمان ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کی زبان کا عملی و ادبی سرمایہ اس قوم کی ثقافتی ،تہذیبی اور ملی امنگوں اور کامیابیوں کا عکاس ہوتی ہے۔ اس لئے قومی زبان سے انحراف اور گریز کسی صور ت میں بھی جائز نہیں ہے۔ قومی زبان قومی شعور اور فکرو تخیل کی امین ہوتی ہے اور کوئی قوم اپنے آباو اجداد کی روشنی طبع سے صرف نظر کرکے خود آگاہی کامرحلہ طے نہیں کرسکتی۔ اردو صرف تاریخی سرمایہ نہیں بلکہ ایک جدید ترین ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس ملک میںلچک اوروسعت موجود ہے۔ گزشتہ چار سو سال میں اس زبان نے مقامی اور پردیسی زبانوں کے لفظ اپنے معنوں ، مزاج اور لہجے میں ڈھال کر قبول کیے ہیں اور اپنے اندر ضم کیے ہیں۔ گویا کہ یہ زبان کائنات کی طرح مسلسل پھیلاﺅ کی طرف گامزن ہے، اس میں جدید علوم و فنون کے مکمل ابلاغ کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے اردو کو بحیثیت قومی زبان کے قبول کرنا ہماری قومی ضرور ت ہیں۔ آزاد اور خو دمختار قوموں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان کے فروغ کے لیے مسلسل جدو جہد کرتی رہتی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں اردو کی اہمیت اور ضرورت کے لئے اپنی زندگی کے آخری دورمیں یعنی 1934 سے 1948 تک وہ مسلسل اردو کی وکالت کرتے رہے۔ 1940 میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ “پاکستان کی قومی زبان ہوگی کیونکہ اردو ہی برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں نہ صرف مذہب ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلمانانِ برصغیر کا عظیم عملی سرمایہ محفوظ ہے بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے، اس لیے ضروری ہوگا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت دی جائے”۔
اب ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ سرکاری و نجی اداروں میں اردو کی اہمیت کے حوالے سے کاغذاتی کاروائی اور استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ، سرکاری اسکولوں کی طرح نجی اسکولوں میں بھی اردو اور اردو کی کتابوں کو اہمیت دینی ہوگی۔ کیونکہ قوم کا مستقبل اپنی قومی شناخت ہی سے جوڑا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نجی اسکولوں میں مشکل انگلش اور اردو کتابیں پڑھانے سے بہتر ہے کہ انتظامیہ سندھ ٹیکسٹ کی کتابوں کا استعمال کرئے اور بچوں کو بہتر مستقل اور روشن خیال سوچ اپنانے کا موقع فراہم کرے۔ کیونکہ تاریخ اور تاریخ دانی کے حوالہ جات قومی اسباق میں ہی موجو ہوتے ہیں نہ کہ نجی اور خواہش پر مبنی کتابوں میں ۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ عدالتی کاروائی ،محکمہ ڈاک اوردیگر سرکاری محکمے خودکو اردو کی طرف راغب کریں اور سرکاری طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے واضح حکم کے بعد اب عدالتی حکم کے مطابق آئین پاکستان کی روشنی میں اردو کو مکمل طور پر پر رائج کریں ۔ ملک پاکستا ن کی تعمیر کو 75 سال ہوگئے ہیں مگر ہم آج بھی بنیادی طورپر کمزور ہیں کیونکہ ہم نے ادبی قومی زبان کو اہمیت نہیں دی اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اپنی شناخت بھی تباہ کر بیٹھیں گے۔