آہ!عبدالواحد یوسفی، کچھ یادوں کے انمٹ نقوش

Published on October 19, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 374)      No Comments

فہمیدہ بٹ
میرے استاد، میرے محسن، مجھے صحافت کی ہرجہت پرعملی طور پر آگے بڑھنے کی راہ سجھانے اوردکھانے والے، مجھے عزت اور وقار کے معنی سکھانے،سمجھانے اور توقیردینے والے آج اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے… اس خبرنے مجھے اندر سے ہلاڈالاکہ ”عبدالواحدیوسفی آسمان صحافت کادرخشندہ ستارہ غروب ہوگیا، روزنامہ “آج”کے بانی اور سینئرموسٹ صحافی عبدالواحدیوسفی گذشتہ شب انتقال کرگئے“۔
میں نے کئی میڈیامالکان کیساتھ براہ راست کام کیامگر میں نے آج تک میڈیا مالکان میں ایسا ہمدرد، نفیس، اعلیٰ ظرف، خوش اخلاق، خوش اطوار، بااصول، باوقار،زیرک، ذہین، اعلیٰ اقدار، بہترین نظم ونسق چلانے والاباصلاحیت منتظم، دوررس، دوراندیش اور اعلیٰ ٰفہم وفراست کاحامل انسان نہیں دیکھا۔ اتنی ہمہ جہت خوبیوں کے باوجود انتہائی منکسر مزاج شخصیت,جس نے اپنے ملازمین کو کبھی ملازم نہیں بلکہ اپنا ساتھی اور مددگار سمجھا.وہ اجرت یا تنخواہ سے زیادہ انعام دیاکرتے جس سے کارکنوں کے کام کاجذبہ دوچندہو جاتا۔ لاتعداد خاندانوں کوروزگار دیااور کبھی کسی کو بلاوجہ روزگار سے الگ نہیں کیا۔ بڑے بڑے بلنڈرزپربھی معمولی سی سرزنش اور آئندہ کیلئے محتاط رہنے کی تاکید، یہ تھا اس بڑے دل والے بڑے انسان کاکردار۔ ….1996میں جب میں نے روزنامہ آج جوائن کیاتو میں روزنامہ پاکستان اور روزنامہ خبریں کی رپورٹر تھی، ہرکسی کاخیال تھاکہ ایک قومی اخبار اور بیورومیں آزادانہ طور پرکام کرنے والاصحافی ایک مقامی اور مالک کی ناک کے نیچے کام نہیں کرسکتا سومیرے لئے بھی یہی رائے قائم کی گئی۔مگرمجھے جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ مجھے مالکان سے اسلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتاکیونکہ ایک تومیں کام چور نہیں محنتی ہوں دوسرے جو کام نہیں آتا بہت جلد سیکھ بھی لیتی ہوں اور دسترس بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ .روزنامہ “خبریں”جوان دنوں ایک بڑا اور مقبول قومی اخبار تھا جبکہ “آج” ایک مقامی اور قدرے نیااخبار تھامگر بوجوہ “خبریں”چھوڑنے اور “آج “جوائن کرنے کے بعد مجھے کام کرنے اور اپنی صلاحیتوں کوپرکھنے کاجوپرلطف تجربہ ہوا اس نے مجھے پیچھے مڑکردیکھنے اور افسوس کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ”آج “ میں کام کے دوران میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر کسی ادارے کامالک یابگ باس کرپٹ یا بدکردار نہ ہوتو اسکا نچلا عملہ کبھی غلط کار نہیں ہوسکتا۔ مجھے ”ہرلحاظ سے تحفظ“ کاجو احساس روزنامہ ”آج“ میں کام کے دوران ملااتناتحفظ نہ اس سے پہلے ملا نہ بعد میں۔
میں روزنامہ آج کی پہلی خاتون ورکر تھی گوکہ اس سے پہلے بھی روزنامہ پاکستان اور خبریں میں مجھے خیبرپختونخوا کی پہلی فیلڈورکنگ جرنلسٹ ہونے کااعزاز حاصل تھامگر ”آج“ میں یوسفی صاحب کی سرپرستی نے مجھے آزادانہ اڑان بھرنے کے بھرپور مواقع دیئے۔مجھے معلوم نہ تھاکہ میرے جیسی طفل مکتب ایک ادارتی شعبے کی انچارج بھی بن سکتی ہے مگر یوسفی صاحب کی پارکھی نگاہوں نے میری رپورٹنگ کے
اندازسے میرے اندرکے ہمہ جہت صحافی کاکھوج لگالیااور میرے ”آج“ جوائن کرتے ہی مجھے ایڈیٹوریل سیکشن کاانچارج بنادیا۔ دفتر
میں وہ شام کو آتے جبکہ میری ڈیوٹی صبح ہوتی۔مگرہر صبح دفتر پہنچتے ہی یوسفی صاحب کا ایک ہدایت نامہ سامنے نوٹس بورڈ پرملتا۔ان کا ہدایت دینے سرزنش کرنے اور ہردن کے حساب سے ایک سیکھ دینے کاانداز کسی ماہر اور پروفیشنل استاد سے کہیں آگے تھا۔ ادارے کے ہرہرشعبے پر گہری نظر اور ہرشعبے کیلئے ماہرانہ مشورے اور ہدایات ان کی فہم وفراست کا آئینہ دار ہے.آج مجھے لگتاہے دفتر کاساراعملہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتاتھا کیونکہ یوسفی صاحب کی ایک بہت پیاری عادت تھی ایک دن کسی کی غلطی پر اسے نوٹس بورڈ پر سرزنش اور 25روپے جرمانہ تواگلے ہی دن معمولی سے کام پرشاباش اور 50رو پے انعام سے نوازتے۔ اکثر میری تنخواہ میں 60سے70فیصد انعامی رقم کااضافہ ہوتا۔ ہم سب یوسفی صاحب کے اس ہدایت نامے کو ”لولیٹر“ کہاکرتے تھے کیونکہ ایک دن اداسی کے بعد اگلے دن ایک شفیق ماں کی طرح یوسفی صاحب کی شاباشی نہ صرف اس اداسی کو دور کردیتی بلکہ انعام کی رقم پردل باغ باغ ہوجاتا اور ہم پھرسے شاداب دل کیساتھ کام میں لگ جاتے۔
میرے دل میں کالم نگاری کا شوق بھی یوسفی صاحب کی سرپرستی اور شاباشی سے پروان چڑھا. اس سے پہلے میں نے فیچرز, انٹرویوز, رپورٹس اور آرٹیکلز رائیٹنگ توکی تھی مگرادارتی صفحے کاانچارج ہونے کے باوجود کالم کی طرف دھیان نہیں گیاتھابلکہ یوں کہنابےجانہ ہوگاکہ میں کالم نگاری کواپنی بساط سے بڑاکام سمجھتی تھی اور اس میدان کواپنے استادوں اور بڑے لکھاریوں کیلئے مختص سمجھ کر انکی صف میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر رہی تھی اسلئے میں برملا یہ کہہ سکتی ہوں کہ مجھے کالم نگاروں کی صف میں کھڑاکرنے اور کالم نگاربنانےوالے یوسفی صاحب ہی ہیں. چونکہ یوسفی صاحب شام کو آفس آتے اور رات آخرتک اخبارکی نگرانی کرتے جبکہ ہم صبح آتے اور دوپہرتک چھٹی کرلیتے اسلئے ایک روز میں نے اپنی ایک تحریریوسفی صاحب کوبھجوائی اورکسی اندرونی صفحے پر چھاپنے کی اجازت مانگی, اگلی صبح مجھے حسبِ توقع اجازت توملی مگر ساتھ ہی ایک خوشگوار سرپرائز بھی ملا یوسفی صاحب نے میرے مزاج اوراندازِتحریرکے عین مطابق مجھے ٹائیٹل مع لوگو بنابنایابھجوایااور مجھے ہدایت کی کہ میں ہفتے میں کم ازکم ایک باقاعدہ کالم”صدائے حق” کے ٹائیٹل سے لکھاکروں۔ یوں میں نے” آج “کے ادارتی صفحے سے ہی صدائے حق کے ٹائیٹل سے کالم لکھنے کاآغاز کیا۔ میں اکثر متنازع باتیں، نکات، الفاظ اور تحریریں تھوڑے سے ردوبدل کیساتھ قابلِ اشاعت اور غیر متنازعہ بنا دیاکرتی تھی کبھی کبھی تو لکھاریوں کے خیالات کے مطابق تحریر کابیشتر حصہ ہی میری الفاظ پر مشتمل ہوتا کیونکہ میری کوشش ہوتی تھی کہ اخبار کی ساکھ وشہرت بحال رہے جبکہ جھگڑوں اور تنازعات سے بھی بچے رہیں اسلئے یوسفی صاحب میرے کام کے اندازسے مطمئن تھے کیونکہ یہ سب وقتاً فوقتا ًانہوں نے ہی مجھے سکھایاتھامگراسکے باوجود مجھے اپنی ایک غلطی آج تک یاد ہے جبکہ اس کے نتیجے میں یوسفی صاحب کی فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی کبھی نہیں بھولے گی۔ ایک روز ہمارے بہت معتبر کالم نگار عنایت اللہ فیضی صاحب نے ایک کالم لکھاجو میں نے بغیر سبنگ ایڈیٹنگ اسی طرح چھاپ دیا۔اگلے دن صبح آفس پہنچی توسامنے نوٹس بورڈ پر یوسفی صاحب کا لولیٹرموجود پایاجسے مجھ سے پہلے آنے والے پڑھ چکے تھے.یوسفی صاحب کے کمال اعلیٰ ظرفی سے انتہائی نرم لہجے میں جوتحریر تھا اسکا لب لباب یہ ہے کہ رات اخبار کی چھپائی کے بعد آخری نظر ڈالتے ہوئے انکی نظر فیضی صاحب کے کالم پرپڑی جوحد درجہ متنازعہ بھی تھااور اخبار کی ساکھ ڈبونے کے ساتھ ساتھ اسکابزنس ہی نہیں اخبار ہی بند کرانے کاموجب بن سکتاتھاچونکہ ان آخری لمحوں میں کچھ بھی نہیں ہوسکتاتھااسلئے یوسفی صاحب نے فوری فیصلہ لیتے ہوئے متعلقہ علاقوں میں جانے والی بارہ سوکاپیوں میں سے ادارتی صفحے ہی نکلوا دیئے اور ”آج “کی تاریخ میں میری وجہ سے پہلی مرتبہ ایک علاقے کو اس دن کااخبار بنا ادارتی صفحے کے ملا۔مگر آفرین ہے اس ہستی پر جس نے نہ مجھے نوکری سے برطرف کیانہ کالم نگار کاکالم بند کیابس مجھے احتیاط برتنے کی ہدایت کی اور اتناکہاکہ اگر وہ آخری لمحوں میں ادارتی صفحہ نہ دیکھتے تو اخبارایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچارہو سکتاتھا۔ اس کے بعد میں نے جتنے سال کام کیا انہوں نے کبھی مڑ کر اس بات کو نہیں دہرایا کوئی دوسرا مالک ہوتاتواسی واقعے کو لےکردن رات استحصال کرتارہتا۔میں سمجھتی ہوں آج میڈیاکے بحرانوں کی وجہ یہی ہے کہ مالکان یوسفی صاحب جیسی وسعت قلبی اور وسعت نظر سے خالی ہیں اگر میڈیامالکان یوسفی صاحب کاطرزقیادت اختیارکرلیں تونہ صرف بحرانوں سے چھٹکارہ پایا جاسکتاہے بلکہ کماحقہ ترقی بھی کی جاسکتی ہے۔ یوسفی صاحب سے کام کی بات کے علاوہ توکبھی ملاقات نہیں ہوتی تھی مگر تحریراً یعنی ایک کھلے لولیٹر کے ذریعے ہرروز ان سے سیکھنے کوملتاتھا۔انکی کشادہ دلی کایہ عالم تھا کہ کبھی بھی اپنے آپ کو عقلِ کل نہیں سمجھتے تھے اچھی بات,تجویز اور مشورہ جوبھی دیتا بنا حیل وحجت شکریئے کیساتھ قبول بھی کرتے اور عمل بھی کرتے۔جب میں نے ”آج“ کے ایڈیٹوریل سیکشن کاچارج سنبھالاتو ایڈمن کے علاوہ کسی بھی سیکشن کے عملے کی آمد و رخصت کاکوئی وقت مخصوص نہیں تھا جسکا جب جی چاہتاآتا جب جی چاہتادرمیان میں کام چھوڑ کرنکل جاتا پھر لوٹ آتا.حضرات کیلئے شائدیہ روٹین قابلِ عمل ہوتی ہومگر میرے لئے باربارآناجاناگھومناپھرنا اور بنانظم وضبط کام کرنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہ تھا۔ دوسری جانب آفس ایکوئپمنٹ اور برقی آلات کا آن رہناادارے پر بھی بوجھ تھا، اس صورتحال کے چلتے میں نے یوسفی صاحب کو اپنے سیکشن کیلئے وقت کے تعین کی تجویز دی اورعملدرآمد کیلئے مدد مانگی.یوسفی صاحب نے نہ صرف یہ کہ میرے سیکشن بلکہ تمام سیکشنز کی آمد ورخصت کاوقت متعین کیا بلکہ عملے کی آسانی کےمطابق ری شفلنگ کرکے تین شفٹیں بنائیں جس سے کام کے پورے عمل میں روانی اور ترتیب پیداہوئی، آفس پرعملے کارش بھی کم ہوا اور سب کو سہولت بھی ہوئی۔بعد ازاں پتہ چلاکہ “مشرق” سمیت دیگر اخبارات نے بھی یہی ڈسپلن اپنالیاہے. یوں تو یوسفی صاحب کی بے شمار باتیں گولڈن ورڈز کے زمرے میں آتی ہیں مگر انکی ایک بات مجھے اکثرمواقع پریاد آتی ہے.کہتے تھے, “بعض انسانوں کی ایک خوبی ننانوے خامیوں پر حاوی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کی ایک خامی ننانوے خوبیوں پر حاوی ہوجاتی ہے.”اپنے ا ردگرد نظرڈالیں تو ہرطرف یہی حال ہے مگر یوسفی صاحب لوگوں کی خامیوں کو نظرانداز کرکے خوبیوں سے کام لیناجانتے تھے.وہ ادارے کے کارکنوں کی کارکردگی پرخود نظر رکھتے اور کسی دوسرے کی رائے پر اپنی رائے نہیں بناتے تھے۔کبھی کبھی حالات جاننے کیلئے دن کو بھی آفس آتے.ایسے ہی ایک موقع پر مجھے کہا کہ “کبھی کبھی آپکی کاپی لیٹ ہوجاتی ہے اسلئے پہلے اپنا کام کیا کریں بعد میں اوروں کا“۔ میں بڑی حیران ہوئی کہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ میںاوروں کے کام میں مدد کرتی ہوں.)انہوں نے خود ہی میری حیرت دور کرتے ہوئے کہا,”محترمہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا…یہ سب لوگ اپنے اپنے صفحات کی سبنگ ایڈیٹنگ سرخیوں اور تصاویر کی سلیکشن وغیرہ کے کام میں آپ سے مدد لیتے ہیں,میں منع نہیں کرتا
ضرورکیجئے مگرپہلے اپناکام ختم کرکے….” ہرکارکن کو اسکی صلاحیت اور مزاج کے مطابق ذمہ داری دینے میں ان جیسی نگاہ میں نے آج تک نہیں دیکھی.بعض لوگ جو دفتر میں کام کرتے تھے انہیں فیلڈ میں بھیجا تووہاں انہوں نے پہلے سے زیادہ بہتر کام کیا اور آج بھی کامیابی سے کررہے ہیں۔.خود میرے بارے میں بعض سینئرز نے انہیں اکسایاکہ فہمیدہ کو مارکیٹنگ کا کہیں مگران کا جواب تھا,”یہ محترمہ کے مزاج کی بات نہیں وہ اپنا کام آفس کے ا ندر زیادہ بہتر طریقے سے کررہی ہیں.”یوسفی صاحب اپنے فائدے کیلئے چاہتے تو مجھ پراشتہارات کادباﺅ ڈال سکتے تھے مگرانکی سوجھ بوجھ کا ہی کمال تھاکہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ کسی کارکن سے اسکے مزاج کے برعکس کام لینے کانتیجہ کیاہوتا ہے یعنی کارکن اپنا پہلا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتا.جبکہ اکثرمیڈیا ہاﺅسزمیں ذرا سی خوش شکل خاتون یالڑکی کو لازماً ایکسپلائیٹ کیاجاتا ہے کہ وہ مارکیٹنگ کرے بزنس لائے۔ میں نے صرف روزنامہ “آج” میں دیکھاکہ تنخواہ میں اضافہ اور ترقی صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پرہوتی بعض اداروں میں تو……..
جنرل مشرف کے مارشل لا کے روز صبح صبح میں آفس پہنچی تو یوسفی صاحب دفترمیں موجود تھے اورضمیمہ بھی نکال چکے تھے گویااس رات کی ڈیوٹی کے بعد وہ سوئے ہی نہیں بلکہ اپنی حاضری سے انہوں نے عملے کوایک عملی پیغام دیا کہ کوئی مقام حاصل کرلیناشایداتنامشکل نہ ہو مگر اس مقام کو قائم رکھنا یقینا کٹھن ہوتاہے.انکی مستعدی,چابکدستی اور ان تھک محنت کا منہ بولتا ان کا روزنامہ “آج” کی مقبولیت کا گراف ہے جو مقامی ہوتے ہوئے بھی قومی اور بین الاقوامی مقبولیت اور معیار حاصل کرچکاہے.میڈیامالکان کے لئے یوسفی صاحب کی طرز ِ قیادت ایک ٹھوس عملی نمونہ ہے جس سے بہت کچھ سیکھاجا سکتا ہے.انہوں نے بیوی کا زیور اور اپنا گھر بیچ کر “آج “کابیج لگایا، اسکی آبیاری شبانہ روز محنت سے کی اپنا خون پسینہ شامل کیا مگر کارکنوں کے گھروں کے چولھے روشن رکھے.وہ چاہتے توبعض دوسرے مالکان کی طرح ایک اخبار سے کئی اخبارات نکال سکتے تھے مگر انکا کہنا تھا کہ اس ادارے سے کئی خاندانوں کا روزگار لگاہواہے اسلئے اسکو کسی طرح نقصان میں نہیں جانے دیاجاسکتا۔ میراایمان ہے کہ اپنی بخشش کاسامان تو وہ اپنی زندگی ہی میں کرگئے ہیں مگر رہتی دنیا اپنے لئے دعاکیلئے اٹھنے والے لا تعداد ہاتھ بھی چھوڑ گئے ہیں انکے لئے ہردل سے دعا نکلتی رہے گی کہ اللہ انہیں اپنے قرب میں اعلیٰ و ارفع مقام عطاکرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے. آمین.یارب العالمین….جی نہیں چاہتاکہ انہیں مرحوم لکھاجائے مگر کارزارحیات کانظام ہے جس روح نے آناہے اس نے جانابھی ہے مگر ایسی ہستیاں مرحوم ہوکر بھی دلوں میں زندہ رہتی ہیں اللہ سبحان باری تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین…آج میرادل خون کے آنسورورہاہے آج میں بےحدپچھتارہی ہوں کہ کاش یہ باتیں انکی زندگی میں انکے روبروکہہ سکتی میں
دکھی ہوں کہ میں کئی بارپشاور گئی مگر ان سے ملاقات نہ ہوپائی. آخردم تک انکی شام کو دفترآنے کی روٹین تھی اسلئے میں دن کے وقت گئی توانکی بہو سے ہی مل سکی۔کاش ہم وقت کی ڈور کوتھام سکتے ان اچھے بہت اچھے لوگوں کوانکی خوبیوں کے بارے آگاہ کرسکتے جنہیں انکے جانے کے بعد تعزیتی ریفرنسز میں اچھے الفاظ میں یاد کیاجاتاہے۔ کاش اے کاش کہ ہم اتنے بے بس نہ ہوتے.میں نے خودکلامی میں کیاکہا کیانہیں کہا بس اتناسمجھ میں آتاہے کہ یوسفی صاحب کے بارے لکھناسورج کوچراغ دکھانے جیساہے اورحق تویہ ہے کہ حق ادانہ ہوا۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Weboy