بہترین ٹیکس نظام ملکی خوشحالی کا ضامن

Published on November 15, 2019 by    ·(TOTAL VIEWS 305)      No Comments

غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک ٹیکس وصول کئے بغیر قائم نہیں رہاسکتا کیوں کہ کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے،مستحقین کی امداد،سڑکوں،پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر،بڑی نہروں کا انتظام،سرحد کی حفاظت کا انتظام،فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے اور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جوٹیکس وصولی سے پوری کی جاتیں ہیں۔تاریخی گواہ ہے کہ ا ن وسائل کو پورا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ،خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہداور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھااور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے۔
اب جس چیز سے لوگ پریشان ہے اس کاسب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹیکس کس بلا کام نام ہے جس سے ہم پاکستانی اتناگھبراتے ہیں، دراصل ٹیکس کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کی ریاست کے ساتھ مالی تعاون کا نا م ہے جس کے تحت وہ اپنی انکم یا بزنس میں نفع اور اپنی گڈز اور سروس پر ادا کرتا ہے۔بس اس سے زیادہ ٹیکس کچھ بھی نہیں، یہ ہر ذمہ داری شہر ی کی ذمہ داری ہے جس ادا کرنا سب پر لازمی ہے۔
اب آجاتے ہیں ایڈوانس ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کیا ہے، ایڈوانس ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس ایک چیز کے دو نام ہیں، یعنی ان میں کوئی فرق نہیں، ایڈوانس ٹیکس سیلر اور خریدار دونوں کو ادا کرنا ہوتا ہے، مثلا ً اگر آپ کوئی پراپرٹی خریدتے ہیں یا بیچتے ہیں دونوں صورتوں میں اپکو ایدوانس ٹیکس ادا کرنا ہوگا، ایف بی آر کی زبان میں سیلر پر ایڈوانس ٹیکس 236Cکہلاتا ہے جبکہ خریدار پر 236k کہلاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ ایڈوانس ٹیکس کب ادا کیا جائیگا؟ تو  قارئین اسکا جواب یہ ہے کہ ایڈوانس ٹیکس پراپرٹی کے منتقلی کے وقت ادا کیا جائیگا، لیکن بجٹ 2019 کے تحت سیلر پر ایڈوانس ٹیکس کی مدت 3 سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے یعنی یہ کہ پراپرٹی خریدنے کے پانچ سال کے بعد ٹیکس کی شرح 0 ہوجائیگی۔
گین ٹیکس سے مراد کیا ہے، اسکے نام سے بھی انداز ہوجاتا ہے کہ جو بھی گین (حاصل) کیا ہے اس پر ٹیکس دیں، گین ٹیکس پراپرٹی میں جو بھی نفع آپ نے گین کیا ہے اسکو رٹرن فائلنگ کرتے وقت ایف بی آر کو ادا کرنا ہوگا۔ اب گین ٹیکس کتنے منانع پر کتنا دینا ہوگا اسکے لئے مختلف سلیبس بنائے گئے ہیں، جیسے کہ 50 لاکھ اگر گین کیا ہے تو اس پر 5 فیصد گین ٹیکس ادا کرناہوگا، اسی طرح ایک کڑور پر 10 فیصد اسی فارمولے کے تحت گین چارجز ہیں۔
آخر میں ایک مثال کے ذریعہ بات کو آسان کردیتا ہوں، مثال کے طور پر میں نے پراپرٹی 50 لاکھ کی خریدی، دوسال کے بعد پراپرٹی کی ویلیو 75 لاکھ ہوگئی، اور اب میں جب اسکو بیچنے جاتا ہوں تو میں نے اپنی پراپرٹی پر 25 لاکھ کانفع کمایا، اب مجھے اس 25 لاکھ پر5 فیصد گین ٹیکس 1 لاکھ 25 ہزار روپے دینا ہوگا۔اور چونکہ میں پراپرٹی بیچ رہا ہوں تو اس پر ودہولڈنگ ٹیکس 1 فیصد دینا ہے تو 75 لاکھ کا ایک فیصد 75 ہزار ہو گیا تو کل ملا کر مجھے 1 لاکھ 25 ہزار گین ٹیکس اور 75 ہزار ایڈوانس ٹیکس ٹوٹل ڈھائی لاکھ کی رقم ادا کرنے ہونگے۔
اس سلسلے میں سیاسی اختلافات سے ہٹ کر دیکھیں تو چیئرمین ایف بی آر سمیت تمام افسروں اور عملے کی کارگردکی پر کوئی شک نہیں،جنہوں نے دن رات ٹیکس وصولی کے لئے آگاہی مہم، سیمینارسمیت تمام ذرائع استعمال کیا اور کررہے ہیں تاکہ لوگ ملکی ترقی کے لئے ٹیکس ادا کریں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بھی عوام میں ٹیکس کے حوالے خوف کیوں پایا جاتا ہے،لوگ ٹیکس جمع کروانے کے لئے رضامند کیوں نہیں۔
ٹیکس کے حوالے سے صرف اورصرف لاہور کی بات جائے تو محکمہ مال،  محکمہ کوآپریٹو پنجاب کا ٹیکس وصول میں اہم کردار ہے۔ان دونوں محکموں کے  کئی افسر بھی پریشان ہیں۔ کہ ٹیکس ہدف میں ناکام کیوں ہیں۔ ماضی گواہ کہ جب بھی کسی ثبوت کی بناء پر حکومت نے کرپٹعناصر کے خلاف کاروائی کے لئے حکم جاری کیا تووہ ریکارڈ نذرآتش ہو گیا۔ اب بھی صورت حال وہی ہے کیوں کہ وزیر اعظم عمران خان بار بار ٹیکس نظام کی بہتری کے لئے احکامات جاری کررہے ہیں۔اور کرپٹ عناصر متحرک ہیں۔
ماہرین کہنا ہے کہ کرپٹ لوگ خود ریکارڈ آگ نہیں لگاتے بلکہ چھوٹے چھوٹے کرپٹ لوگ ان کے چند روپوں کی خاطر بڑے سے بڑے کارنامہ کرجاتے ہیں جس قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوجاتا ہے اورکرپٹ عناصر کیسوں سے بری ہوجاتے ہیں۔ محکمہ کوآپریٹو پنجاب ایک ایسا بھی سینئر کلرک تعینات ہے جس کا نام لطیف خان ہے اس کے خلاف متعددکیس زیرسماعت ہیں۔وہ رجسٹرارکے دفتر حاضر تک نہیں ہوتابلکہ متعددہاؤسنگ ساسوئٹوں سے مختلف ذرائع پیسے بھی وصول کرتا پایا گیا۔ لیکن نہ محکمہ نے اس بات پر نوٹس لیا۔ نہ ہی حکومت ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات پر غور کرتی ہے۔ جو بعد میں سانحہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ایسی محکمہ مال کی ہے۔متعدد پٹواریوں کے خلاف کرپشن کے کیس زیرسماعت ہیں۔لیکن حکومت خاموش ہے۔ کرپٹ پٹواری حضرات بھی کیس ختم کروانے کے لئے آخری سہار ا آگ کا لیتے ہیں۔اور ثبوت نذرآتش کرکے باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اور خاندان کے خاندان قتل درقتل ہوتے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس وصول کی نظام کی بہتری کے لئے محکمہ مال،محکمہ کوآپریٹو پنجاب میں عرصے سے تعینات سنیئر اور جونیئر کلرک جن پر کرپشن سمیت ریکارڈ میں تبدیلی جیسے الزامات کی درخواستیں زیر سماعت ہیں ان کوکیس کی انکوائری مکمل ہونا تک فارغ کیا جائے۔یہی کرپٹ لوگ چندروپوں کی خاطر ٹیکس نظام کی بہتری میں رکاوٹیں پید اکررہے ہیں اورلوگوں میں ٹیکس نظام سے خوف زد کررہے ہیں۔اگر ایسے معاملات پر نوٹس نہیں لیا گیا تو حکومت کے تمام اقدامات رد اور ریکارڈ نذرآتش ہوتے رہیں گے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes