لاہور: (یواین پی) پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کی روشنی میں 10 دسمبر کو لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ کو آپریشنل کرنے کا اعلان کر دیا، لیکن دنیا نیوز نے اس کے پس پردہ حقائق جاننے کیلئے منصوبے سے منسلک کمپنیوں اور مختلف سرکاری حکام سے بات چیت کی، جس کے نتیجے میں متعدد چشم کشا زمینی حقائق سامنے آئے ہیں ،جن کے مطابق اورنج ٹرین کا 10 دسمبر کو افتتاح نمائشی ہوگا جبکہ عوام اپریل 2020 میں ٹرین میں سفر کر سکیں گے۔ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ 10 دسمبر کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وزیروں اور صحافیوں پر مشتمل لگ بھگ 250 افراد کے قافلے کیساتھ ٹرین کے 27 کلو میٹر روٹ پر صرف نمائشی سفر کریں گے اور درحقیقت اس کا مقصد سپریم کورٹ کی اس منصوبے کو آپریشنل کرنے کے سلسلے میں مقرر کردہ جنوری 2020 کی ڈیڈ لائن سے قبل ٹرین کو چلتے ہوئے دکھانا ہے اور یہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مئی 2018 میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے الیکٹرک انجنوں کے بجائے ڈیزل انجن سے منسلک کوچوں سے منصوبے کے افتتاح کا ایکشن ری پلے ہوگا۔ اس افسر نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ منصوبے کے تعمیراتی ڈھانچے، بجلی کے نظام اور دیگر حصوں کا سیفٹی آڈٹ تا حال مکمل نہیں کیا گیا جس کے تحت یہ ضمانت دی جاسکے گی کہ ٹرین چلانے کا ڈھانچہ محفوظ ہے۔اس افسر نے کہا سیفٹی آڈٹ کیلئے تعمیراتی کاموں کی ٹھیکیدار کمپنیوں نے کم از کم 2 سے 3 ماہ کا وقت مانگا ہے جبکہ دوسری بڑی اور فیصلہ کن رکاوٹ یہ ہے کہ جن کورین اور چینی کمپنیوں کے جوائنٹ وینچر نے 11 سال کیلئے ٹرین چلانے اور اس کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ لینا ہے اس کے ساتھ ابھی حکومت پنجاب کا تحریری معاہدہ ہی نہیں ہوا اور وہ اس کام کیلئے 45 کروڑ روپے ماہانہ کا تقاضا کر رہے ہیں جس پر صوبائی حکومت کے تحفظات ہیں۔ ٹرین چلانے اور دیکھ بھال کے ٹھیکے کی نیلامی میں حصہ لینے کیلئے پاکستان ریلوے نے بھی بڈ ڈاکومنٹس حاصل کئے تھے لیکن میٹرو ٹرین چلانے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مقابلے میں شرکت کا ارادہ ترک کر دیا، تاہم اس مقابلے میں کورین اور چینی کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر فنی لحاظ سے موزوں ترین قرار پایا تھا۔