تحریر. چوہدری فیصل جاوید
جاتے دسمبر کی ایک ٹھٹھرتی شام پارک میں بیٹھا سوچنے لگا کہ کیوں نا اس بیمار معاشرے میں بنائے گئے اپنے ہی قوانین (جو نسلوں تک سفر کرتے ہیں) پر لکھوں جو بعد میں روایات بن کر انسانی زندگی اور اس سے جڑی خواہشات کا خون کرتی ہیں جس سے نا صرف یہ معاشرہ پستی کا شکار ہورہا ہے بلکہ طلاق کی شرح میں بھی ممکن حد تک اضافہ ہوتا دیکھا جا سکتا ہے جسکی وجہ شادی میں لڑکے لڑکی کا رضامند نا ہونا ہے اور جب رضامند نہیں ہوں گے تو اس رشتے میں عدم برداشت اور اختلافات جنم لیں گے اور معاملہ طلاق تک جا پہچتا ہے
کیونکہ ہمارے معاشرے میں پسند کی شادی کو ایک جرم تصوّر کیا جاتا ہے اور پسند کی شادی کے حق میں بولنے والے کو برا بھلا کہا جاتا ہے خاص کر لڑکیوں کے دماغ میں کیلیں ٹھونکی جاتی ہیں کہ بھئی یہ روایت ہمارے وڈیروں سے چلتی آ رہی ہے اسے توڑا تو لوگ کیا کہیں گے..؟ شاید اسکی وجہ نعوذباللہ اسلام کی اہمیت سے واقف نا ہونا بھی ہے کیونکہ اگر اسلام سے واقف ہوتے تو ایسی فرسودہ روایات کو ترک کر دیا جاتا. میں یہاں معذرت کے ساتھ یہ کہنے پہ مجبور ہوں کہ آجکل بغیر محبت کے شادی اور طوائف میں فرق نہیں رہا، مان لو کہ فرق ہے بھی تو بس اتنا سا کہ طوائف کے پاس روز ہم جاتے ہیں جبکہ بیوی کو ہم ساری زندگی کیلئے خرید لاتے ہیں کیونکہ محبت نا ہو تو شادی ایک خریداری ہوتی ہے خواہ ایک دن کی ہو یا عمر بھر کی، البتہ بیوی کے ساتھ روز روز کے ربط سے اک رشتہ ضرور وجود میں آجاتا ہے جسے ہم محبت کا نام دیتے ہیں حالانکہ محبت ایسی نہیں ہوتی، محبت کچھ اور ہوتی ہے، شاید وہ دور اچھا تھا جب لڑکیوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا جس سے والدین اور بچے دونوں ایک ہی دفعہ اذیت اور تکلیف سے گزر جاتے تھے کیونکہ اس بیمار معاشرے میں اسی روایت کی بناءپر مَیں نے والدین کو اپنی مرضی سے بیٹی بیاہنے کے بعد خود ہی بساتے بھی دیکھا ہے اب بیٹیوں کو جلایا تو نہیں جاتا مگر انہیں کوئی شرعی حق بھی نہیں دیا جاتا، والدین ان کی مرضی کے خلاف انکی شادیاں کر دیتے ہیں جس سے ان رشتوں کو قائم رکھنا صرف بڑوں ہی کی کوشش تک محدود ہوتا ہے شادی پسند کی ہو یا نا ہو، اسے چلانے کیلئے حوصلہ، محبت، ہمدردی اور باہمی ہم آہنگی لازم ہے اور جنہوں نے اس معاملے میں دل کی آواز پر لبیک کہا ہو وہ ہر قِسم کے حالات میں اپنی زمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں. میرے خیال میں شادی بجلی کی ایک تار کی مانند ہوتی ہے اگر یہ تار صحیح سے جُڑ جائے تو ٹھیک ورنہ سارے زنگی جھٹکوں میں گزر جاتی ہے اور جھٹکے بھی آخر کب تک قابلِ برداشت ہوتے ہیں،
لوگ بزنس پارٹنرشپ کرتے ہیں کیا ان کو رات کو خواب آتا ہے کہ کون اِس کیلئے بہتر رہے گا جو شراکت دار بن کر بزنس میں اسکا ہاتھ بٹائے گا، ظاہر ہے اس سب کیلئے وہ وہی انسان ڈھونڈے گا جس سے اسکی کیمسٹری ملتی ہو، جو اس کے کاروبار کو لے کر آگے چل سکے، جو اس میں آنے والی اونچ نیچ کو سنبھال سکے، جس کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے کا انداز اچھا ہو وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، بالکل اسی طرح زندگی کی اہم ترین پارٹنرشپ شادی ہے اس معاملے میں نا جانے کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ کائنات کا نظام جوڑے کے فارمولے پر چل رہا ہے اس جوڑے میں پیار و محبت، ہمدردی اور باہمی ہم آہنگی جیسی خوبیاں اشد ضروری ہے، پرسکون زندگی کے حصول کیلئے ایک من پسند پارٹنر کا ہونا لازمی ہے اس کے بغیر انسان ادھورا محسوس کرتا ہے، من پسند پارٹنر ملنے پر ہی پارٹنرشپ کامیاب رہتی ہے جس سے دونوں زندگی میں آئے ہر دکھ سکھ، لمحہ بہ لمحہ پیش آنے والے مسائل اور الجھنوں میں کندھے سے کندھا ملا کر چل سکتے ہیں پھر یہ معاشرہ نا جانے کیوں چال، شکل، رنگ ڈھنگ اور تنخواہ کے نام پر پارٹنر ڈھونڈتا پھرتا ہے.
مانتا ہوں کہ یہ بہت بری بات ہے جب بچے غلط سمت مڑ جائیں یا والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں تو والدین کو بہت دکھ اور تکلیف سے گزرنا پڑنا ہے بچوں کی اس حرکت سے اسی بیمار معاشرے میں والدین کا مقام بھی پہلا سا نہیں رہتا لیکن ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بچے والدین کو اپنا شرعی حق یاد دلاتے ہیں (یاد دلانا بھی چاہیے) پھر بچے والدین کی طرف سے یہ سنتے ہوئے کہ بیٹا مقدر میں لکھا بدل نہیں سکتا (حالانکہ سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھتے کر چلتے ہیں) کہہ کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں پھر بچے انکی توجہ اس صورت میں حاصل کرنے پر باغی ہوتے ہیں، والدین کا مان توڑتے ہیں اور فرض کریں کہ بچے والدین کا کہا مان بھی لیں تو ایسا رشتہ کم ہی کامیاب رہتا ہے کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں وہ دیرپا کیسے ہو سکتا ہے؟
اسلام نے واضح حکم دیا ہے کہ تمہیں جو عورت (مرد) پسند ہو اس سے نکاح کرو اور والدین کو بھی پابند بنایا ہے کہ وہ بچوں کی پسند کو رد نا کریں اور جو اسلام نے اصول بتائے ہیں انکی پیروی کریں، پھر جب انکی پیروی ہوگی تو مجال ہے کہ اولاد غلط رستہ اختیار کرے، کوئی گھر سے بھاگے یا چھپ کر نکاح کرے، جب سب کی رضامندی ہوگی تو نا صرف طلاق کی شرح کم ہوگی بلکہ خاندان اور معاشرہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچ جائے گا فرمان ہے کہ
”دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے”´۔
حوالہ (سورہ النسائ، ابن حنبل حدیث نمبر 2469، صحیح بخاری حدیث نمبر 5120)۔