غزل۔عشبہ تعبیر
ٹوٹ جائے گا بھرم ایسا کبھی سوچا نہ تھا
اس قدر لگ جائے گاصدمہ کبھی سوچا نہ تھا
ہائے تیری سرد مہری اور مرا احساسِ غم
زرد پڑ جائےگا گل چہرہ کبھی سوچا نہ تھا
جو متاعِ جان و دل کا وارث و حقدار تھا
لوٹ کر لے جائےگا ورثہ کبھی سوچا نہ تھا
ہو گیا سب کچھ مرے خوابوں خیالوں سے پرے
دل میں ہو گا درد کا رستہ کبھی سوچا نہ تھا
پیار کے زیرِ اثر اس سرزمینِ قلب پر
ہجر کا ہو جائے گا حملہ کبھی سوچا نہ تھا
چار دن کا ربط باہم عمر بھر کی دوریاں
پیار یوں ہو جائے گا تنہا کبھی سوچا نہ تھا
ہم کہ عشبہ زندگی بھر بھولے کے بھولے رہے
اپنا بن کے دینگے سب دھوکہ کبھی سوچا نہ تھا