تحریر۔۔۔ میر افسر امان
جب سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس کو خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے مختلف وقتوں میںکچھ احکامات اپنے پیغمبروں ؑکے ذریعے دیے جاتے رہے ہیں۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ،اللہ کے پیغمبرؑ اللہ کا پیغام اللہ کی مخلوق تک پہنچاتے رہے ۔ بلا آخر رسول اللہ نے اس کام کی تکمیل کی۔اللہ نے شروع سے دین ِاسلام کو انسانوں کے لیے پسند کیا تھاجس میں خاندانی نظام بھی شامل ہے۔اوّل اوّل انسانی معاشرے نیکی پر چلتا رہا۔ اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کی وجہ سے انسان میں اختلاف پیدا ہوئے۔یہودی اپنے آپ کو اللہ کاچہیتا یعنی پسندیدہ انسان سمجھنے لگے۔ عیسائیوں نے اپنے گناﺅں کی تلافی اپنے پیغمبر سے منصوب کر لی۔ یہ سب خود ساختہ دین تھے جو اللہ سے بغاوت پر قائم ہوئے۔یہودیوں کی غلط روی پر اللہ نے سزا دی۔عیسایت کو بھی ناپسند کیا۔ جب تک مسلمان اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہے اور ان کاخاندانی نظام مضبوط تھا۔اللہ نے ان کو دنیا کی امامت دیے رکھی۔ مگر جب دین اسلام کے پیروں،مسلمان اللہ کے دین سے ہٹ گئے تو اللہ نے انہیں بھی سزا دی اور غیر قوموں کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔بقول علامہ شیخ محمد اقبال شاعر اسلام کہ:۔
آتجھ کو بتاﺅں میںتقدیر امم کیا ہے
شمشیر سنا اوّل طاﺅس ورباب آخر
مسلمانوں نے جب سے شمشیر سناں چھوڑی ہے دینا میں ذلیل و غوار ہو رہے ہیں۔ جس اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس نے اسے زندگی گزارنے کے طریقے بھی بتائے جس میں ایک خاندانی نظام بھی شامل ہے۔غیر مسلموںنے دین میں اپنی مرضی ڈال کر اپنے معاشروں اور خاندانی نظام بل لکل تباہ و بر بادکر دیا ہے۔اب جلد ہی ان کا سیاسی غلبہ بھی ختم ہونے والا ہے ان شاءاللہ۔معاشی ترقی کی وجہ سے دنیا کو کمانڈ کرنے والے یہود و نصارا کا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے جس میں عورت کا کردار بھی ہے۔کیونکہ عورت کے اصل کردار سے ہٹا کر اس کا استعصال کیا گیا۔اسے گھر کی ملکہ کے بجائے شمع محفل بنا دیا گیا ہے۔اب ہی یہی استعصال مسلم معاشرے میں بھی پھیلایا جا رہاہے ۔کافروں کابے حیائی کا معاشرہ امت مسلمہ میں بے حیا عورتوںکے ذریعے پھیل رہاہے۔جس سے مسلم خاندانی معاشرے بکھرتے جا رہے ہیں۔
اسلام میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہےںاللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عورت کو اعزازبخشا کہ اُسے برابری کے ساتھ آدم ؑ کے ساتھ جنتّ مےں رکھا۔قرآن شریف میں ہے کہ”پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بےوی جنتّ مےں رہو“ (البقرة ۔۴۳) ےہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو برابری کے حقوق دےے۔ آج کافروں کے بنائے ہوئے اپنے قانون کے تحت عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔یہ قرآن کی رو سے جہالت کے سواکچھ بھی نہےں ۔ قرآن شرےف مےں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اوراُن کی اہمےت کے بارے مےںذکر ہے۔ قرآن شریف میں ہے کہ” عورتوں کے لےے بھی معروف طرےقے پر وےسے ہی حقوق ہےں جےسے مردوں کے حقوق اُن پر ہےں“ (البقراة۔ ۸۲۲) اِس آےت سے ےہ ثابت ہوتا کہ ربِ کرےم نے خود قرآن شرےف مےں شروع ہی سے عورتوں کے حقوق کا حکم دے دےا تھاجسے دنےا کی کوئی طاقت سلب نہےں کر سکتی۔ےہ عورتوں کے لےے بڑا اعزاز ہے ان کے ربّ کی طرف سے۔ عورتوں کے بارے مےں اللہ تعالیٰ نے مزےد فرماےا ”عور توں کے لےے بھی اُس مال مےں حصّہ ہے جو مال باپ اور رشتہ دارں نے چھوڑا ہو“ (البقرا۔۴۳) اللہ نے رشتہ داروں کے مال مےں عورتوں کا حصّہ بھی رکھا۔ ےہ ہےں حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کے لےے۔ اسی طرح حدےث شرےف مےں بہت سی جگہوں مےں رسول اللہ صلی اللہ علےہ و سلم نے عورتوں کے حقوق کی بات کی ہے۔حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے رواےت ہے کہ رسول نے فرماےا ساری دنےا سرماےا ہے اور دنےا کا بہترےن سرماےہ نےک عورت ہے (مسلم) حضرت ابن عمر سے رواےت ہے رسول نے فرماےا حلال کاموں مےں سب سے زےادہ نا پسند ےد ہ کام خدا کے نزدےک طلاق ہے۔ (ابودود) جہاں مرد کو طلاق دےنے کا حق ہے وہاں عورت کو خلع لےنے کا بھی حق ہے۔ گو کہ طلاق بعض صورتوں مےں ناگزےں ہو جاتی ہے مگر ےہاں بھی عورتوں کے حقوق کا خےال رکھا گےا ہے ۔حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے رواےت ہے رسول نے فرماےا جب خدا تعالیٰ تم مےں سے کسی کو مال عطا فرمائے تو اس کو چاہےے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے پھر اپنے گھر والوں پر۔(مسلم) اس مےں بھی عورت جو گھر والوں مےں شرےک ہوتی ہے ،کا خےال رکھا گےا ہے۔ عورت مسلمان معاشرے مےں ماں، بےوی،بےٹی اور بہن کے مقدس رشتوں مےں جڑی ہوئی ہے جب کہ مغرب مےںصرف معاشی مشےن ہے اسلام مےں عورتوں کے جتنے حقوق ہےں دنےا کے کسی بھی مذہب مےں اتنے حقوق نہےں دہےے گئے۔گو کہ جہالت کی وجہ سے مسلمان معاشرے مےں بھی عورت کے حقوق سلب کر لےے ہےں جس کا اسلام سے کوئی تعلق
نہےں بلکہ ےہ عےن جہالت ہے۔ کاروکاری،قرآن سے شادی اور عورتوں کو تعلےم نہ دلوانا اور کہنا کہ کون سی ہم نے نوکری کروانا ہے ۔اےک پڑھی لکھی عورت اپنے بچوں کو تعلےم سے آراستہ کر سکتی ہے۔ معاشرے کا اچھا فرد بن سکتی ہے۔ بلاشبہ مسلمان معاشرے مےں اس ناسور کی اصلاح ہونی چاہےے ۔ آج بھی پاکستان کے صحےح سوچ رکھنے والے مسلمان گھرانوں مےں بہت سی خرابےوں کے باوجود بھی مثالی خاندانی نظام موجود ہے ۔ آج بھی خاندان کے فرد اےک دوسرے کے دکھ سکھ مےں کام آتا ہے۔ بہت سے واقعات حدےث کی کتابوں کے اندر موجود ہےں ۔ عورت ماں ہے اس کے پاﺅں کے نےچے جنت ہے۔عورت بہن ہے جس کو بھائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ کی حدیث کہ جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ان کا گھر آباد کیا وہ میرے ساتھ جنت میں جائے گا۔عورت بیوی ہے جس کے اللہ نے حقوق مرتب کیے ہیں۔اللہ نے اس پر معاش کا بوجھ نہیں ڈالا۔
ہندو مذہب مےں عورت کو شوہر کی موت کے وقت ستی کر دےاجاتا ہے۔ ےہودی مذہب مےں عورت کو حےض کے دنوں مےں ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ آج مغرب کے معاشرے مےں عورت طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہے۔ ان کی سمجھ مےں نہےں آ رہا کہ اس خرابی کو کےسے ختم کےا جائے۔ مغرب مےں مظالم کی وجہ سے اسلام لانے کا رجحان عورتوں مےں مردوں سے زےادہ ہے۔مغرب کے معاشرے میں۸۱ سال کی ہوئی تو والدےن کہتے ہےں جاﺅ اپنی معاش تلاش کرو ۔اےک ہوٹل مےں گھر کے سب افراد مل کر کھانا کھاتے ہیں اور بل علیحدہ علیحدہ ادا کرتے ہےں۔ مرد فےکٹری سے رات کو کام کر کے آتا ہے تو ٹےبل پر طلاق نامہ پڑا ہوتا” مےں آپ کے ساتھ نہےں رہنا چاہتی ہوں کل کورٹ مےں آجانا مےں نے آپ سے طلاق لےنی ہے“ مغرب میں سیکس کی اتنی آزادی ہے کہ ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ۰۴ فی صد بچے حرامی ہوتے ہےں وہ اپنے باپ کی تلاش مےں پھرتے رہتے ہےں۔ عورت کو گھر کی ملکہ کی بجائے شمع محفل بنا دےا گےا ۔ان کا کوئی پروڈکٹ عورت کے اشتہار کے بغےر فروخت ہی نہےں ہوتا۔ پانی کے تالابوں مےں نےم عرےں لباس کے ساتھ نو جوان بہن بھائےوں،ماں باپ کے مل جل کے نہانے سے آئے دن حادثات اخباروں مےں آتے رہتے ہےں۔ کےا کےا بےان کےا جائے۔یورپ کا خاندانی نظام ختم ہو چکا ہے۔ اصلاع کی کوئی بھی کوشش بھی کارگر نہیں ہو سکتا۔یورپ کے دانشور مسلمان معاشرے مےں آ کر اس کے ابدی خاندانی نظام کے متعلق تحقےق کرتے ہےں کہ یہ کیسے قائم و داہم ہے۔کس طریقے سے مسلم خاندانی نظام کوختم کرےں یا کیسے مسلم معاشرے اور خاندانی نظام کو اپنا جیسا آزادمعاشرہ بنائیں۔ ےہ کام وہ اپنی اےن جی اوئز کے ذرےعے کرتے رہتے ہےں۔کیاسال مےں اےک دن عورت کے حقوق کا حق کا دن مناکرعورت کوحقوق مل سکتے ہیں۔اس کے لیے معاشرے کی تشکیل کرنی پڑتی ہے جو کو مغرب نہیں پہلے سے ہی تباہ کر دیا ہے۔ہر دور کے انسان نے عورت کے ساتھ ظلم کےا۔ قبل اسلام کوئی اس کو زندہ دفن کر دےتا اور طرح طرح کے ظلم کرتا اور کوئی آج جدےد دور مےں اسے رونقِ محفل اور کوئی اسے شمعِ محفل بناتا ہے اور اپنی جنسی تسکےن کے لیے کلب کی زندگی ایجاد کی گئی۔جس میں مرد زن شریک ہوتیں ہیں۔ ڈانس کیا جاتا ہے۔ بتیاں گل کر دی جاتیں ہیں ۔پھر اندھرے میں جس کی بیوی جس کے ہاتھ لگی۔ شیطان کھل اپنا کھیل کھیلاتاہے۔کلب جانے والی فحاشہ عورت کہتی ہے کہ میں بچے نہیں جنوں گی۔کیونکہ میری کلب لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔ہوٹوں میں برہنا عورت پیلے ڈانس کرتیں ہیں۔ مغرب اور مشرق کے قدےم وجدےدجہلانے عورت کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ڈھائے ہےں۔
بڑے افسوس کا مقام ہے مسلمان گھرانوں کی عورتےں مغرب زدہ خواتےن کی نقالی کرتےں ہےں۔ پاکستان میں بھی عورتیں بھرے بازار میں کہتیں کہ ہمارا جسم ہماری مرضی۔تمھارا جسم اور مرضی کہاں! یہ جسم اللہ کی امانت ہے اس کو اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ پچھے دنوں مغربی این جی اوز کی فنڈنگ سے مسلم عورتوں نے مارچ کیا اور اب پھر ۸ مارچ کو اسلام آباد اور لاہور میں مارچ کرنے کی ریہرسل کر رہیں ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ میں اس کی اجازت نہیں ہونے چاہےے۔ اس سے اسلام پر عمل کرنے اور حیا دار حجاب کرنے والی مسلم عورتوں کا استحصال ہوتا ہے۔موم بتی والی انٹیاں مسلم معاشرہ خراب کر رہی ہیں۔جرمنی میں عدالت کے اندر ایک با حجاب مسلم عورت مروہ الشرینی پر چاکو سے حملہ آور ہو کر ا یک متشدد انتہا پسندعیسائی نے شہید کر دیا۔اِس شہیدا حجاب کی یاد میں اُس دن کے بعد۴ ستبر و ساری دنیا کی مسلم خواتین نے حجاب ڈے منانا طے کیا جو اب تک منایا جارہا ہے۔عیسائی معاشروں میںمسلمان بچیوں کے سروں سے حجاب نوچے گئے۔ دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کی نوکری ختم کی گئیں۔تعلیمی اداروں میں حجاب والی مسلم خواتیں کو داخلے دینا بند کیے گئے۔بازاروں میں حجاب والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ہمیںایک انصاف پسند عیسائی یاد آگیا۔ اٹلی کے ایک منسٹر جناب رابرٹو مورسن کو پارلیمنٹ کے اندر حجاب پرپابندی کے قانون بنانے کے لیے دستخط کا کہا گیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ورجن میری( حضرت مریم ؑ) حجاب پہنتی تھی تو میں حجاب کے خلاف قانون پر کیسے دستخط کر دوں؟ ان حالات میں مسلم خواتین کا کردا ر کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ہونایہ چاہےے کہ ۸ مارچ کو بے حیا مغرب زدہ اور شیطانی فعل کو عام کرنے والی مسلم خواتین سے ہزاروںدرجہ زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ان کے بے حیائی اورفحش عمل کو رد کرنا چاہےے۔ دینی جماعتوں کو ابھی سے اِس فعل کی مذمت کرنی چاہےے۔ امت مسلمہ کی خواتےن کو امہا ت المومنےنؓ ،صحابےات ؓ اور دوسری اسلام کی نام ور خواتےن اسلام کی سےرت پر چلنا چاہےے جوان کی آئےڈ لز ہیں۔اور مغرب زدہ بے حیا اورپر کٹی مسلم خواتےن جو بازاروں میں کہتی پھرتی ہیں کہ میرا جس میری مرضی کو الااعلان رد کرنا چاہےے۔