تحریر۔۔۔ ڈاکٹرفیاض احمد
دنیا میں بہت سارے ممالک ہیں اور ہر ملک کا کوئی نا کوئی مذہبی تہوار ہوتا ہے مذہبی تہوار کا مطلب وہ خاص دن جس میں وہ رنگ و نسل اور معاشرتی اقتدار کے تفرقے سے دور ہو کر باہمی خوشی سے مناتے ہیں اس دن سب برابر ہوتے ہیں کیونکہ انسانیت برابری کی تعلیم دیتی ہے کسی کو رنگ ونسل کے لحاظ سے کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے فرق صرف ہماری پیدا وار ہے مگر کیوںان تہواروں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے اور ہر انسان کو احساس کمتری سے بچانے کے لئے مختلف ممالک میں مختلف طریقوں سے ان لوگوں کی مدد کی جاتی ہے جس کی بدولت ان کی عزت نفس بھی مجروع نہیں ہوتی اور وہ اپنی خوشیوں کو اپنی استطاعت کے مطابق حاصل کر لیتے ہے اس مقصد کو پایا تکمیل تک پہچانے کیلئے مختلف قسم کی کمپنیاں مختلف قسم چیزوں کی اوپن مارکیٹ لگاتی ہے جس میں اصل قیمت پر تیس سے پچاس فیصد تک ڈسکاﺅنٹ موجود ہو تا ہے ان مصنوعات میں ضرویات زندگی کی وہ تمام مصنوعات موجود ہوتی ہے جو ہر امیر و غریب کی ضرورت کے عین مطابق ہیں ان مارکیٹوں کا مقصد ہوتا ہے کہ غریبوں کی عزت نفس بھی برقرار رہے اور وہ ان کی طرف سے مدد بھی حاصل کر لیں جس کی بدولت بہت سے لوگ اپنی خوشیوں کو دوبارہ کر لیتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق خریداری کر لیتے ہے ان میں ترقی پسند کے علاوہ وہ ترقی پسماندہ ممالک بھی شامل ہے حالانکہ کئی ایسے ممالک کرئہ ارض پر موجود ہیں جو مسلم ممالک نہیں ہے مگر پھر بھی مسلم تہواروں پر ڈسکاﺅنٹ دیتے ہیں اسی طرح ہمارا پیارا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن اسلامی تعلیمات کا نفاذ بہت مشکل ہوگیا یہاں اخوت اور بھائی چارے کے مطلب سے دوری ہے ہمارے معاشرے میں اسلامی تہواروں پر خوب کمائی کی جاتی ہے کسی بھی چیز کا شرع نفع عام دنوں کی نسبت مذہبی تہوارں پر زیادہ ہوتا ہے رمضان المبارک ایک مقصدس مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی برکات انسانو ںپر نازل ہوتی ہیں ناپ تول میں کمی۔ ذخیرہ اندوزی۔ جھوٹ لالچ اور حقوق کی نافرمانی کرتے ہے ذرا غور کریں ہم روزے رکھتے ہے لیکن روزے کا مقصد نہیں جانتے یہ ایک جسما نی تربیت ہے جو ہمیں بے حیائی سے روکتی ہے اور صبرو استقلال سے کام لینے کا درس دیتی ہے اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہے کیا ہم جانتے ہے کہ ہر رکعت میں پڑھی جانے والی سورت فاتحہ کا کیا مطلب ہے اس کا مطلب ہے کہ کھولنے والا اس سورت میں انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑھائی بیان کرتا ہے اور سیدھی راہ کی درخواست کرتا ہے کیا ہم صرف یہ کہتے ہے یا اس پر عمل بھی کرتے ہیں اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہے بلکہ دو تین قرآن ختم کر دیتے ہے مگر اس کی افادیت سے محروم رہتے ہے کیونکہ قرآن مجید میں جن احکامات کا ذکر کیا گیا ہے ہم بالکل اس کے برعکس چلتے ہے یعنی سود خوری ۔ناپ تول میں کمی ضرویات سے زیادہ منافع ذخیرہ اندوری وغیرہ ہم نے اس ماہ کو رحمت کے بجائے کاروبار بنا لیا ہے مثال کے طور پر عام دنوں میں کھجور ریڑیوں پر عام ہوتی ہے مگر اس ماہ میں ڈبے میں بند اور قیمت آسمان پر یہ انسانیت ہے یہ کاروبار خدا کیلئے کچھ خوف کرو فروٹس اور سبزیاں اس قدر مہنگی کہ غریب آدمی ان کو کھانا تو ایک طرف دیکھنے سے بھی ڈرتا ہے نام کے مسلمان ہونے کے بجائے اپنے کاموں سے مسلمان بن جاﺅ پہلے کیا ہمارے اوپر تھوڑے عذاب نازل ہوچکے ہے مزید عذابوں کو دعوت دینے سے گریز کریںاور چیزوں کو دوسروں کیلئے بھی عام کرو جو صاحب استطاعت نہیں ہے انسان وہ ہے جس نے دوسرے انسان کی مدد کی خدا کیلئے اس ارض وطن کے لوگوں پر رحم کرو نماز قرآن اور روزہ تو رکھتے ہوہو سکے تو اس کے پڑھے ہوئے الفاظ کو بھی جاننے کی کوشش کرو تب جاکر اس کا اجر عظیم ہوگا قرآن مجید میں واضع ہے کہ کسی کی مدد اس طرح کرو کہ اس کی عزت نفس مجروع نہ ہو مگر مددکرنا تو دور کی بات ہم تو اس کو بھوک سے ماردیں گے اپنے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں اور محلے والوں پر بھی رحم کرو غریبو ں کی حالت زار دیکھو اب ان میں تو آلو پیاز بھی خریدنے کی سکت نہیں ہے کیونکہ سب سے سستی سبزی بھی آسمان کو چھو رہی ہے مرنا ہے آخر موت ہے تو کیوں نہ ہم اپنی زندگی کو رنگین کر لیں اپنے رب سے گناہوں کی بخشش طلب کرلیں کیونکہ زندگی موقع کم اور دھوکہ زیادہ دیتی ہے ہمارے اوپر بھی ایک حساب کتاب والا ہے جو بہترین حساب کرتا ہے اس کے حسا ب کتاب سے بچو اور توبہ کرو قیمتوں کو کنٹرول کر و کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی بڑھ کر کوئی عذاب الہی نازل ہو جائے مرنے والوں کے جنازوں میں جایا کرو تاکہ تمہیں اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ وہ اپنے ساتھ کتنی دولت لے کر جا رہے ہیں خوف خدا سے ڈرو اور لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آﺅ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے یہ زندگی ایک عارضی مقام ہے اس کے فائدے کے لئے اپنے اصلی مقام کو نہ کھو جاﺅ درا سوچو۔رمضان آئے تو آلو پیاز پھل فروٹ مہنگے۔۔عید آئے تو کپڑے جوتے مہنگے۔۔کورونا وائرس آیا تو ماسک مہنگے۔اور نغمے ہمارے سنو تو ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔۔۔۔اس بابرکت مہینے میں بھی ہم سودہ بازی سے باز نہیں آ رہے ہیں ہم نے گھروں میں اذانیں بھی دے کر دیکھ لیا مگر عذاب الہی ذرا بھی کم نہیں ہوا اب ایک ہی کام ہے اگر وہ کر لیں تو شاید ہی اس عذاب سے بچ سکیں وہ ہے قیمت خرید اور قیمت فروخت میں باہمی توازن یعنی جتنے کی چیز اتنے میں فروخت کرنا(پانچ روپے کی چیز کو پانچ روپے میں بیچ کر دیکھو)ہو سکتا ہے ہم اس طرح سے اس عذاب الہی سے محفوظ ہو جائیں اس وقت تو فروٹس اور دیگر سبزیوں کے علاوہ آلو اور پیاز کی قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں کوشش کر کے قیمتوں میں توازن ہم پیدا کریں اس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کائنات میں توازن پیدا کر دے گی ابھی بھی وقت ہے ہم ذرا سے سوچیں اور زندگی کو واپس اسی مقام پر لے آئیں جہاں سے گرے تھے زندگی کو موت کی نظر سے دیکھو تو تمہیں سب کچھ پتہ چل جائے گا
مر کے بھی اک خطا کر جاﺅں گا۔۔۔جاﺅں گا کندھوں پے اور سب کو پیدل چلاﺅں گا
آجکل لوگ چار یا پانچ آدمیوں کے ساتھ جا کر نکاح کر رہے ہیں جو اصل میں اسلام کی تعلیم ہے اگر ہم لوگ ان باتوں کو بغور دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح سے سب کچھ کو واپس لا رہا ہے یعنی نظام قدرت میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے نقصانات ہم اٹھا چکے ہیں شادیوں اور دوسرے رسومات میں ہم کس طرح سے اپنے آپ کو بھول گئے تھے اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو بدل لیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین کرکے چیزوں کو اپنی اصلی حالت میں خود کردیں اس سے پہلے کہ ہم ان میں سے ہو جائیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے بند کر دئیے تھے اب بھی وقت ہے ذرا سوچیں۔