جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں

Published on May 6, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 241)      No Comments


اے آر طارق
دوچار مرتبہ نہیں،ہزاربار یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ اسلام کے خلاف ہی لوگ کیوں اُٹھتے ہیں۔اسلام کے خلاف ہی کیوں ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔اسلام کوہی کیوں اپنا ٹارگٹ اور طعنہ وتشنیع کا باعث بناتے ہیں۔سب کچھ چھوڑکراسلام پرہی کیوں برستے ہیں۔ساری چیزیں نظراندازکرکے اسلام کا گلاگھونٹنے کی طرف ہی کیوں آجاتے ہیں۔اسلام کی تعلیمات کوہی کیوں پس پشت ڈال دیتے ہیں۔اسلام اور رب رحمان کی کیوں نہیں مانتے،اپنی ہی کیوں منوانے پر تل سے جاتے ہیں۔جان کی امان پاﺅں تو ایک عرض کرتاہوں کہ شاید مذہبی معاملات میں بھی ہم اللہ عزوجل کی بجائے اپنی ہی بات بتانے اور منوانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ملک عزیز میں بہت کچھ کھول کر صرف مساجد ہی بندکروانے پر مصر ہیں۔کیوں؟؟؟گندگی سے اٹے ہوئے کاروباری مراکز اور تعفن وبدبو سے بھرے پڑے مقام سبزی وپھل منڈیاں کھلی ہیں۔وہاں رش بھی ہے اور کرونااحتیاط کی دھجیاں بھی مسلسل بکھیری جارہی ہیںمگرسب برداشت ہے۔کوئی مسئلہ نہیں۔سرکاربھی ٹینشن میں نہیںمگرمساجد جہاں اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔شفاءکے مراکزہیں۔بھٹکے ہوئے دلوں کا سکون ہے۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکی سب سے پسندیدہ جگہ ہے۔ہر طرح سے پاک وصاف ہے ۔وہاں اللہ کے بندوں کی موجودگی بہت سوں کو ڈستی ہے۔پریشان کرتی ہے۔آخر کیوں؟؟؟کیا کاروباری مراکز اور سبزی وپھل منڈیوں میں کرونا کا کوئی خطرہ نہیںہے ؟؟؟کیاساراکرونامساجد میںہی پایاجاتاہے کیا؟؟؟۔کاروباری مراکز اور سبزی وپھل منڈیاںپرہجوم ہوکربھی کروناسے محفوظ جبکہ مساجد میں ایک منظم طریقے سے اکٹھے ہوئے لوگ محدودہوکربھی غیرمحفوظ۔ایسا کیوں؟؟؟رب کے بھولے ہوﺅں پرکرم اور رب کے نام لیواﺅں پر ستم ۔آخر ایساکیوں؟؟؟اگرکرونا کا خطرہ اتناہی پایاجاتاہے تو سب کا ”حقاپانی“بندکیوں نہیں کردیتے۔کیابات ہے کہ گندے نالی ندیوں پربنے کاروباری مراکز اور سبزی وپھل منڈیاں توآپ کو”کارونا تریاق “لگیں اور مساجد اللہ کے گھرآپ کو ”کروناآماجگائیں“۔پتا نہیںایساسوچنے والے اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟؟؟کیوں خدا بھولے ہوئے ،اللہ سے بھٹکے ہوئے کاموں میں مستعدوتیار نظر آتے ہیں۔نمازیں پروردگار کے حکم سے چل رہی کہ ہمارے فرمان مطابق دیکھنے کوتو مساجدمیںخود بمع الاﺅلشکر آجاتے ہیںمگر اِس موقع پر اللہ کے سامنے جھکنے اور نمازپڑھنے سے یکسر قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے صاحب اقتدار لوگوں کو کارونا کے سبب مسجدوں کی صورتحال دیکھنے کے لیے تو آج مصروف وقت میں بھی وقت مل رہاہے مگر کرونا کے باعث بے روزگار و بے زار ہوئے غریبوں کی پتلی حالت اور مسلسل بگڑتے حالات جاننے کے لیے گھر گھر سمیت انتظامیہ جانے کی تو کبھی توفیق نہیں ہوئی ہے۔مساجد میںکروناکے دنوں میں رش کا کیا عالم تو دیکھ گئے ،کارونا کے باعث لوگ گھروں میں کیسے مقید کیسی زندگی بسر کررہے ،حالت کیسی کی طرف جاننے کے لیے تو نہیں گئے۔وجہ کچھ بھی نہیں،نیتوںکی خرابی ہے ۔ذہن میں کچھ اور ہے اور قلب میں کچھ اور ہے۔میں ملکی سلامتی کے پیش نظر کچھ کہہ کر کوئی نیا بھنڈورابکس کھولنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔جو میں کہہ رہا یا اشارہ دے دیا ،سمجھنے والوں کے لیے اِس میں بہت کچھ چھپا ہواہے۔زیادہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت اتنی نہیں ۔اللہ کرے کہ ہم وہ تمام مقاصد جو ملکی سطح پر حاصل کرنا چاہتے ،پالیں۔جس کے لیے ہم رمضان المبارک کے دنوںمیں بھی اتنا کھجل خراب ہو رہے ہیں۔ کچھ دانشوروں کوتو یہ کھلی مساجد ایک آنکھ نہیں بھاتی۔20 نکات پر عمل نہیں ہورہا،کہہ اور بتابتاکر انعام وصول کرنے کی راہ پر برابر نکلے ہوئے ،نجانے کون سا تمغہ یا اعزاز سمیٹنے کی جانب بڑھے ہوئے ہیں۔ایسے لوگوں سے کہنا ہے کہ آپ کو کچھ نہیں حاصل ہونے والا،آپ کی ساری کوشش بے کار جائیں گی۔بحالت مجبوری ایس او پیز پر عمل ہوگا۔مساجد قطعی طور پر بند نہیں ہونگی۔اگر اِن سب کے باوجود ”اشارہ اغیار“پر بند کرنی پڑی تو الگ بات ہے۔کوئی کچھ نہیں کرسکتا،کچھ نہیں کہہ سکتا، بات یہ ہے کہ اللہ والوں کی رفتار کو سست تو کیا جاسکتاہے مگر روکا نہیں جاسکتا۔اسلام کی فطرت میں اُبھرنا لکھاہے ،اِسے جتنا کوئی دبائے گا ،یہ اُتنا ہی نکھر کے سامنے آئے گا۔ اسلام بیزار افراد کو مساجد میں تانک جھانک کرنے سے پہلے نہ کچھ ملا ہے نہ اب ملے گا۔اِس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسانوں کے خودساختہ خیرخواہوں کو مساجد آمد پر اللہ کے حضور سجدہ کی بھی توفیق سے محروم رکھا گیاہے۔انسانوں کی خیر خواہی کا دعویٰ مگر انسانی مسیحائی کہیں نہیں۔سبھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے عوام کا پیٹ کاٹنا چاہتے ہیں۔اپنے آنگن کو خوشحالی دینے کے لیے غریب کے آنگن کی خوشیاں چھیننے کے درپے ہیں۔قوم کو خودداری کا درس بھلاکر بھیک منگابنادینے کی طرف لے جایا جارہاہے۔یہ کیسی حکمت وفراست ہے کہ چندہ و خیرات کے لیے قوم کی خواہشوں اور اُمنگوں کو دھوپ میں ڈالا ہواہے اور اُن پر سنگینوں کے سائے ہیں۔قوم کو کرونا سے بچاﺅ کے لیے کوشش جاری ہیں مگر شاید قوم کرونا سے تو نہ مرے ،بھوک سے مر جائے۔قوم کے اب کے مسیحا کے نرالے کھیل اِس بات کے متقاضی ہیں کہ وہ جیسا مرضی ”بندر کلے“کا کھیل کھیلے ،قوم سوال نہ کرے۔بس اِن کی ڈگڈگی پرمسلسل ناچتی رہے ۔قوم کو مسلسل وعدوں اور لاروں پر لگائے رکھنا ہی تو اِن کا اصل کام ہے،خیر خواہی دور دور تک نہیں۔قوم کے رہبر سمجھتے ہیں کہ اِن کے کرونا آڑ میں سب اُٹھائے گئے اقدامات ملک کے وسیع تر مفاد میں اُٹھائے جارہے ہیں۔ایک پل کے لیے مان بھی لیں کہ آپ جو سوچیں،کریں، ٹھیک ہے مگر کرونا کے سبب قوم کے حال وبے حال طبقے کا ہرطرح کی خواہشوں ،اُمنگوں اور ضرورتوں کا خون تو نہ کریں۔ماناکہ آپ اِس ملک کے خیرخواہ ٹھہرے ،ملک کے لیے بہت اچھا کررہے،یقینا آپ کی ملک کے لیے کوشش قابل تحسین ،سراہے جانے کے لائق مگر بھوک وافلاس سے بلکتی ہوئی عوام کاپرسان حال بھی تو بنو۔کیاکرونا کے آنے پر اب پوری قوم کوپابندسلاسل کرکے حالت غم وشدت درد ،بھوکی حالت میں مار ڈالوں گے؟؟؟۔ملک کے خیر خواہوں ۔۔۔تمہیں تو روٹی کی بھی کوئی فکر نہیں ،عوام کے ٹیکسوں سے نوچی اوربٹوری ہوئی رقم سے اپنے پیٹ بھرلوگے۔عوام سے حاصل کی گئی دولت اور ٹیکسز سے اُن کے دوزخ کدہ کو بھرنے کی بابت بھی کچھ سوچوں گے کیا؟؟؟ کرونا وائرس کے سبب اب تو راقم الحروف بھی تلملا اُٹھا ہے۔بچہ پیسے مانگتاہے ۔دینے کے لیے دس روپے نہیں۔کیا اتنا حق دے سکوں گے کہ جس سے کوئی روتے ہوئے بچے کو چپ کرواسکے کہ اپنا کام یا کاروبار کھول کر رزق حلال کماکر اپنے بچے کا دل بہلا سکے اور اُس کے پیٹ کی آگ بجھاسکے۔مجھے شرم آتی ہے کچھ قلمکاروں کی تحریریں دیکھ کر جو حقائق کا گلا بڑے خوبصورت انداز سے گھونٹ کر نجانے کون سا ثواب کمانا چاہتے ہیں۔کس مشن پر ہیں؟؟؟حق اور سچ کو جھٹلانا اعزاز جانتے ہیں۔کرونا کے سبب مسجدوں کے پیچھے پڑے ہوئے اور باقی سب پر ہاتھ ”ہولا“ ہے۔اسلام دشمنی میں مساجد بند کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔باقی اسلامی ممالک اور مکہ مکرمہ بند کی مثالیں دے کر علماءپاکستان کو جاہل و بے وقوف کہہ اور سمجھ رہے ہیں۔اسلام کو عیسائیت اور یہودیت سے ناحق نتھی کررہے ہیں۔جن کی اصل اسلام کے بعد ختم ہوگئی یا اپنا اثر کھوچکی ہے۔کچھ دانشور چندکھلے کاروباری مراکز اور سبزی و پھل منڈیوں کوتو پیٹ کا دوزخ بھرنے کی خاطر دو وقت کی ضرورت کے قرار دے کرجائز قرار دے رہے ہیںاور مساجد روحانی غذا والے معاملے کو بے کار اور فرسودہ عمل سمجھ کر موجودہ حالات میںبغیر اجتماعی عبادات گزارا بھی ہوسکتاسمجھ کر اِسے خود اور قوم پر ایک بوجھ تصورکررہے ہیں۔ انسانی روح کی تسکین کے عمل اور اطمینان والی جگہ کے سامان پر خوامخواہ کے اعتراض اُٹھا رہے ہیں۔احمقوں سے بڑھ کر احمقوں کے سردار بحالت عذاب میں بھی سدھرنے اور رجوع اللہ کی طرف نہیں آرہے ،طاقت اور اختیار کے زعم میں مبتلا ہوئے اپنی ہی ہانکیں جارہے ہیں۔اپنے اور مملکت کے نظام میں بہتری کہیں نہیں لا رہے۔عوام کو ہی کنفیوز اور عبادات سے دور کر رہے ہیں۔عقل کل بنے ،مت ماری حالت میں نجانے کہاں بہکے اور بھٹکے ہوئے جارہے ہیں۔نجانے خود پر لدے کون سے بوجھ سے چھٹکارہ پانے کی کوششوں میںہر ایک نعمت اور سعادت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ روپے اورپیسے کے حصول کی خاطرہلکان ہوئے رمضان بہارسے سب کو محروم کیے جارہے ہیں۔سب اچھاکے نام پر قوم کے احساس جذبوںسے کھیلے نجانے کس مشن پر عمل پیرا ہیں؟؟؟۔ہر طرح کی غلاضتوں میں حال میں ہی پڑے ملک سعودی عرب کو مشعل راہ لیتے ہیں۔حالانکہ اب سعودی عرب کی حالت وہ پہلے والی نہیں رہی کہ اِسے ہر صورت فالو کیا جائے۔وہ الگ بات ہے کہ ہمارے عقیدت کے سارے مراکز اور رنگ وہی ہی جڑے ہوئے ہیں۔سو اِس کی طرف دیکھنا پڑتاہے ورنہ اِس کا حال آج کل وہ ہے کہ ”یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود“ ۔بات اسلام کی ہوتو ہمارے ملک کے زرخرید دانشور بے تکے دلائل کے انبار لگادیتے ہیں اور وہ وہ باتیں بناتے اور سناتے ہیں کہ اِن کی ذہنی حالت دیکھ کر خود کوبھی شرم سی آنے لگتی ہے کہ یہ ہمارے ملک کے رہبر و رہنماء،ادیب و دانشور ہیں۔صد حیف ایسے دانشوروں سے جواپنے ملک اور دین اسلام کا کم اور اپنے پیٹ کازیادہ سوچتے ہیں۔دین سے زیادہ دنیا کے غم میں ہی خوار نظر آتے ہیں۔مسلسل تھک جانے کی حد تک۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme