تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
جب میں نے اسے نماز پڑھنے کے بعد پر سکون دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی حالانکہ میں بہت سخت پولیس والا تھا دعا مانگنے کے بعد اس کی مسکراہٹ بھری نگاہیں میرے دماغ میں ہزاروں سوال جنم لیے ہوئے تھیں کیونکہ وہ ایک قتل کے مقدمے میں آیا تھا اور اس کے خلاف گواہ بھی موجود تھے چند روز بعد اس کو عدالت میں لے جانا تھا میرے تجربے کے مطابق اس کو پھانسی ہونی تھی تھوڑی دیر بعد اس کے والدین آئے جو بہت غمگین اور افسردہ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کا بچناناممکن ہے اور وہ اکلوتا بھی تھا لیکن یہ شخص غم زادہ ہونے کے بجائے اپنے والدین کو تسلی دے رہا تھا میں اس کی ہمت دیکھا کر حیران وپریشان تھا دوسرے دن بھی جب میں پولیس اسٹیشن پہنچا تو اس کا رویہ بالکل کل جیسا تھا لیکن اب میں نہ رہ سکا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں پتا ہے کہ تم پر کیا مقدمہ ہے وہ ہنس کر بولا جی سر جی۔۔۔ میں اور حیران ہواپھر میں نے پوچھا تم اتنے پر سکون کیوں ہو حالانکہ تمہیں پتا ہے کہ تمہیں کیا سزا ہوگی اس کا جواب سن کر حیران ہو گیا وہ بولا میں نے اپنی درخواست اللہ تعالیٰ کے حضور دے دی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی سے نا انصافی نہیں کرتا میں اس لیے بے فکر ہو ں تو میںنے کہا تمہیں ڈر نہیں لگ رہا وہ بولا جب اللہ تعالیٰ پر تقوی رکھو تو پھر کس بات کا ڈریا خوف کیوں کہ اللہ تعالیٰ نا انصافی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ پر یقین کے بعد دل میں کوئی فطور نہیں ہونا چاہیے یقین کامل ہونا چاہیے اگر یقین کامل ہوگا تو منزل آسان ہوگی اس لیے میں پر سکون ہو ں ۔مسلمان تو میں بھی ہو لیکن اتنا کامل یقین رکھنے والے کو زندگی میں آج پہلے مرتبہ دیکھا ایمان اور تقوی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر تقوی کر کے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا ہی اصل حقیقت ہے
اگلے روز مجھے ہسپتال سے فون آیا کہ فوری ہسپتال پہنچیں جب میں وہاں پہنچا تو حیران و پریشان رہ گیا ڈاکٹر صاحب مجھے ایک ایمر جنسی وارڈ میں لے گئے جہاں پر ایک شخص زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا اس نے مجھے دیکھتے ہی بولا ریکاڈنگ کرو میں بیان دینا چاہتا ہوں میں نے موبائل فون کی ریکاڈنگ چلائی وہ بولا سر جی میرے گاﺅں میں جو قتل ہواتھا اور ایک ملزم آپ کی حراست میں ہے وہ بے گناہ ہے کیونکہ وہ قتل میں نے کیا تھااور اپنے پوزیشن کو بورئے کار لاتے ہوئے میں نے ہی جھوٹے گواہ بنائے تھے اتنے میں ہی اس کی روح پرواز کر گئی ڈاکٹر سے پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ اس گاﺅں کے نمبر دار کا بیٹا ہے کل یہ اپنے بچوں کے ساتھ شہر جارہا تھا اچانک ان کے سامنے ٹرک آیا اور ان کا اکسیڈنٹ ہوگیا بیوی اور بچہ موقع پر ہی دم توڑ گئے اور یہ بہت بری حالت میں تھا ہوش آتے ہی اس نے پولیس کو بولنے کا کہا اس کی حقیقت دیکھا کر میں مجرم کے یقین پر حیران ہو اجب میں تحقیقات کے سلسلے میں گاﺅں پہنچا تو پتا چلا کہ مرنے والے کا بیان درست ہے میں اپنے ساتھوں کے ساتھ اگلے دن سارے ثابتوں کے ساتھ اس کو پیش کیا اور مرنے والے کی ریکاڈنگ سنائی اور نمبر دار خود نے بھی بیان دیا جس پر وہ مجرم با عزت بری ہوگیا اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی میں اس کا تقوی اور کامل یقین دیکھا کر اشک بر آیا اور اس سے کوئی نصحیت کرنے کی درخواست کی تو وہ بولا جب انسان اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرے اور کامل یقین کرے اور اپنے تمام معمالات اس کے حوالے کر دے تو پھر خاموش ہوجاﺅ کیو نکہ اللہ تعالیٰ بے انصافی نہیں کرتا اور ہمیں اپنے یقین کو مضبوط رکھنا چاہیے اور پھر اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اہل عبادت اہل دل اور اہل جذبات تو بہت دیکھے مگر اس انسان جیسا انسان زندگی میں نہیں دیکھا جس نے مجھ جیسے کا طریقہ سکھا دیا اور مجھے اللہ تعالیٰ پر یقین کا ایک واضع نمونہ دیکھا دیایہ ایک سبق ہے ہمارے لئے کہ کس طرح سے اللہ تعالیٰ پر تقوٰی کر نا چائیے اور جب کر لیں تو ذہن میں کو ئی اور فطور نہیں ہونا چائیے اس سے ہمارا یقین کامل نہیں رہتا اور ہم شک میں پڑ جاتے ہیں یہی ہمارا امتحان ہے جس کو پاس کرنا ہی زندگی ہے جب ہم اپنے سب کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں مایوس نہیں کرتا اور ہماری توقع سے بھی بڑھ کر ہماری مدد کرتا ہے