تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اعلان کروایا کہ کل صبح شاہی محل کے تمام دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جس چیز پر ہانھ رکھے گا وہ اس کی ملکیت ہوجائے گی یہ خبر سن کر گاﺅں کے تمام لوگ ساری رات صبح کے انتظار میں گزارنے لگے کہ کب صبح ہواور وہ کس چیز پر ہاتھ رکھیں ہر شخص کی سوچ دوسرے سے مختلف تھی کوئی سونے کے سکوں کے بارے میں سوچ رہا تھا اور کوئی شاہی خزانے کے بارے میں سوچ رہا تھا حتی کہ ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق صبح کا انتظار کر رہا تھا سب میں اضطراب کی سی کیفیت برپاتھی ہر شخض بے تابی وبے قراری کے عالم میں تھا ادھر بادشاہ پر سکون نیند میں مبتلا تھا بادشاہ لوگوں کی عقل کا امتحان لینا چاہتا تھا کہ دیکھتے ہے کہ ان کیلئے کیا چیز اہمیت کی حامل ہے جبکہ دوسری جانب لوگ بے سکونی میں صبح کا انتظار کر رہے تھے اتنے میں صبح صادق ہوئی اور آج لوگو ں نے آذان کی آواز کا بھی بے صبری سے انتظارر کیا جونہی آذان گونجی لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف لپکے کیوں کہ بادشاہ کاحکم تھا کہ میرے محل میں وہی آسکتا ہے جو نماز فجر باجماعت ادا کر کے آئے نماز فجر میں بھی لوگوں کا دھیان شاہی چیزوں کی طرف تھا جوہی نماز فجر اداہو ئی تو لوگ یکے بعد دیگرے شاہی محل کی طرف لپکے اور ہر انسان اپنی سوچ اور پسند کے مطابق چیزوں کی طرف لپکا یہ ایک ایسی مافوق الفطرت وقت تھا جو لوگ ضائع نہیں کرناچاہتے تھے اسی گاﺅں میں ایک ضعیف عمر شخص بھی رہتا تھا جس نے دنیا کی رنگینیاں دیکھی ہو ئی تھی وہ سب سے آخر میں محل پہنچا اور لوگوں کا چیزوں کی طرف لگاﺅ دیکھ کر مسکرایا اور آگے بڑھ کر بادشاہ کو چھو لیا جس پر بادشاہ حیران ہو کر اس بوڑھے سے پوچھا یہ کیا ہے تو بوڑھے نے جواب دیا میں نے آپ کو چھوا اور آپ میرے ہوئے اور آپ کی ہر چیز بھی میری بادشاہ اس کی عقل مندی پر حیران ہوااے انسان تو دنیا میں بنگلے گاڑی فیکٹریاں وغیرہ کی خواہشات کرتا ہے یعنی ہر انسان کی خواہش کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اس کی خواہش کریں جو سب چیزوں کا خالق مالک ہے اگر ہم اپنے اندر سے خواہشات نفس نکال کر خواہشات الہی رکھ لیں تو ہمیں بغیر مانگے سب کچھ مل جائے مگر اس میں بات یہ ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ عقل والواں کیلئے نشانیاں ہے اگر وہ جاننے کی کوشش کر یں تو اس وقت ہم میں چیزوں کا اضطراب ہے خواہش نفس نے ہم کو اس طرح مجروع کیا ہوا ہے کہ ہماری عقل پر پردہ پڑھ گیا ہے اور ہماری سوچ میں دنیاوی آسائش ہی قابل غور ہے جبکہ اصل حقیقت کچھ اور ہے ہمارے میں خودی کا عناصر زیادہ ہے یعنی انسان ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کیلئے ہر وقت سوچ بچار میں رہتا ہے اور جب انسان کی عقل سے پردہ اٹھایا جاتا ہے تب تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا یا وہ اس اضطراب کی کیفیت سے دور ہو جاتا ہے اور قربت الہی کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے جس کے بعد کوئی خواہش باقی ہی نہیں رہتی اس لیے ذرا سوچ انسان کہیں ہم سے دیر نہ ہوجائے اور ہم پچھتاتے رہ جائیں خدا کو پہچاننے میں دنیاوی سکون حاصل کرنے کے لئے ہم دن بھر مختلف لوگوں کے آگے پیچھے چکر لگاتے ہیں ہر انسان کو کوئی نا کوئی لالچ ہوتا ہے جیسے کسی کو ترقی اور کسی کو کوئی اور اگر ہم ان لوگوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اس رب کائنات سے رجوع کریں تو ہم ہر چیز کو حاصل کرسکتے ہیں مگر ہم میں شعور کی کمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک میں نا چاہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا اگر ہم اپنی سوچ کا زاویہ اور احساس و جذبات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے لئے صرف کر دیں تو ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو ہم کو چائیے مگر اس کے خودی اورلالچ کو مارنا ہو گا جو نہایت آسان اور نہایت مشکل کام ہے کوشش کریں کہ ہم اپنے آپ کو دنیاوی لالچ سے نکال کر زندگی کے حقیقی رخ کی طرف گامزن کریں تو ہمارے لئے بہتری کا ذریعہ ہے چیزوں کو مانگنے سے بہتر ہے کہ چیزوں کے مالک کے ساتھ تعلقات مرتب کریں تاکہ ہمیں کوئی چیز مانگنے کی ضرورت ہی نا پڑے اور بغیر مانگے سب کچھ مل جائے۔۔۔۔ذرا سوچیںگا