تحریر ۔۔۔مقصوم انجم کمبوہ
آدھی رات کے بعد توپوں نے گولہ باری بند کر دی ۔ ریمز میں مئی 1945جنرل آئزن ہاور کے ہیڈ کواٹر پر جرمن مسلح افواج کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد یہ اگلے روز برلن میں فیلڈ مارشل کیٹیل نے دہرایا ۔دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی ۔ اور جرمنی تباہی و بر بادی کا نقشہ پیش کر رہا تھا ۔ لاکھوں کی تعداد میں جر من باشندوں کو ننگ و بھوک کا سامنا کر نا پڑرہا تھا ۔ اور اس ملک کی معشیت بلکل تبا ہ ہو چکی تھی ۔ فاتح ممالک نے آپس میں گٹھ جوڑ کرکے جرمن کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن نصف صدی کے بعد یہی ملک ترقی و خوشحالی کی بلندیوں کو چھورہا ہے ۔ اس وقت یورپی یونین کے ممبر ملک کی حثیت سے وفاقی جمہوریہ جرمنی دنیا کے سب سے بڑے صنعتی ممالک کی صف میں شمار ہوتا ہے۔ وفاقی چانسلر ہلموٹ کوہل کے عین مطابق جمہوریت معاشی سوشل مارکیٹ اور مغرب میں عالمی معشیت میں انضمام اس کامیابی کی بنیادی شرائط ہیں ۔ جرمنی کی معشیت اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے پیش نظر دوسری صنعتی اقوام کے ساتھ مسابقت میں بہت آگے ہے۔ ماحولیاتی ٹیکنالوجی کی یہ مثال واضح کرتی ہے۔ کہ کس طرح ایک قوم با مقصد حکمت عملیوں کے ذریعے اعلیٰ مقام حا صل کر سکتی ہے۔ جرمن کمپنیاں اس شعبہ میں مارکیٹ پر چھائی ہوئی ہیں ۔ اس امر کا انکشاف ڈاکٹر یورگن روٹگرس نے سائینس ریسرچ اور ٹیکنالوجی بے یون میں وفاقی پارلیمنٹ کے سامنے کیا۔ بلا شعبہ نئے تصورات کے بغیر نئی مصنوعات پیدا نہیں کی جا سکتیں۔ آخری عشرو ں میں جرمنی کی بڑی بڑی سائینسی تنظیموں نے بار بار اپنی استعداداور مہارت کا ثبوت دیا ۔ لیکن ان کے ساتھ تو عام جرمن باشندوں نے بھی اپنے ماضی سے استعفادہ کرتے ہوئے بہتر مستقبل کے لئے نتائج اخذ کئے ہیں۔ یہ تربیت یا فتہ کارکن ہی تھے جنہوں نے ٹریڈ یونینو ں اور درمیانہ درجے کے کاروباری لوگوں سے مل کر معشیت کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔جرمنی کے دستکاروں اور جمہوری پارٹیوں نے باہم مل کر نئی راہیں پیداکیں ۔ ماحولیاتی آلودگی کے خطرات سے عوام الناس کو آگاہ کیا۔ چند سالوں میں نہ صرف جرمنی بلکہ پوری دنیا کی معیشت کے بحران کی زدمیں رہی۔کئی برسوں کی کسا دبازاری کے بعد اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم و ای سی ڈی جس میں سرکردہ صنعتی ممالک شامل ہیں۔ اس وقت اقتصادی صورت حال کے بارے میں پر امید ہے۔ اس تنظیم کے مطابق تمام بڑے بڑے اقتصادی شعبوں میں بحالی کا عمل صحت مندانہ ہے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھاجائے تو جرمن کی حکمران پارٹی میں کوئی سیاسی ڈاکولٹیرا اور بلیک میلر نہیں تھااور نہ ہی سرکاری اداروں میں کرپٹ آفیسر تھے جیسے پاکستان میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک دن بدن معاشی اور اقتصادی طور پر آگے کی بجائے پیچھے جارہا ہے۔ اپوزیشن اور حکمران پارٹیوں میں کرپٹ مافیا اور مفاد پرستی چھائی ہوئی ہے۔ چینی بحران کے خدوخال کا جائزہ لیںتو ہم کو اندازہ ہو جائے گاکہ ہم کیا ہیں اور ہماری معشیت کہا ںجا رہی ہے۔ بدقسمتی ہمارے ملک کی جہاں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جس نے آرام سے انتشاروافتراق کے بغیر کوئی تعمیری کام کیا ہو۔ ایوب خان ،ضیاءالحق اور جنرل مشرف ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی ترقی و خوشحالی میں نمائیاں کام کیا۔ سیاستدانوں میں سوائے ذلفقار علی بھٹو کے کسی نے ملک و قوم کی ترقی و خو شحالی کےلئے مخلصانہ جدوجہد نہیں کی۔ اب تو معاملہ ہی بگڑتا بگڑتا بہت دور جاپہنچا ہے۔ عمران خان بھول جائیں کہ ایسے چوروں ،ڈاکوﺅں اور لٹیروں کے ہوتے ہوئے یہ ملک مدینہ ریا ست بنے گی۔ جہاں ہر شخص لٹیرا ہووہاں اچھائی کی امیدیں نہ رکھئے گا۔ ایک خونی انقلاب کے بعد شاید کوئی ایسا مرحلہ آجائے کہ ملک ترقی کرے۔