مقصود انجم کمبوہ
موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔جو انسان دنیا میں آیا ہے اس نے ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔اسے محشر کے روز اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوناہے۔نادان انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے لیکن نہیں جلد ہی اس کا نام زندوں میں سے نکال دیا جائے گا۔ والدین عزیزواقارب بہت رویئیںگے بلا آخر مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے۔احبا ب عزیز اور رشتہ دار تمہیں خوب یاد کریں گے اور پھر ہمیشہ کے لئے بھول جائیں گے۔بیوی کچھ حصہ سوگوار رہے گی مگر چند روز بعد حالات کی تبدیلیاں اسے تازہ مشاغل میں الجھا دیں گی۔بچے بہت یاد کرےںگے رفتہ رفتہ ان کے ذہن سے تمہارا نقش محو ہو جائے گا ۔طوفان بادوباراں دستور تمہاری قبر کی بلندی کو ہموار کر کے تمہارا نام صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔ چند سال بعد ایک بھولے ہوئے خواب کی مانند ہو جائے گا ۔نصف صدی گزر جانے پر اس بات کا باور کرنا مشکل ہو گا ۔ تم کبھی دنیا میں آئے بھی تھے موت کو یاد کرتے رہنا ہی عبادت ہے۔ عزیزواقارب کا اس کے لئے صدقات دینا اس کے لئے عبادت کرنا اس کی سختیوں کو کم کرنے کی سبیل پیدا کرے گا۔ فقیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص عذاب قبر سے نجات چاہتا ہے اسے چار چیزوں کی پابندی کرنی چاہئے اور چار چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ پہلی چار چیزیں یہ ہیں نماز کی پابندی صدقہ قرآن پاک کی تلاوت اور تسبیہا ت کی کثرت کیوں کہ یہ چیزیں قبر کو منور اور روشن کرتی ہیں ۔دوسری چارچیزیں یہ ہیں کہ جھوٹ نا بولیں خیانت نہ کریں چغل خوری سے پر ہیز کرے اور پیشاب کی چھینٹوں سے بچے۔ حضورپاکµ سے روایت ہے کہ پیشاب سے بہت بچو کہ اکثر عذاب قبر الہی سے ہو تا ہے اور حضور کا یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری طرف سے چار چیزیں نا پسند ہیں ۔ نماز کے دوران فضول کام اور باتیں ،قرآن کے دوران لغوحرکات و سکنات اور شور وغوغا ۔روزہ کے دوران گناہ ،بے حیائی کی باتیں ۔اورقبرستان میں ہنسی مذاق کرنا جناب محمد بن سماک ایک دفعہ قبرستان کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے ان قبروں کی خاموشی سے دھوکہ نا کھانا کیا جانے ان میں کس قدر رنج زدہ لوگ پڑے ہیں ۔بظاہر ان کی یکسانیت سے دھوکہ نا کھایو کچھ معلوم نہیں کہ ان میں کس قدر تفاوت ہے سو غافل کو چاہیے کہ قبر میں جانے سے پہلے اس کو بکثرت یاد بھی کیا کرے ۔سفیان نوری فرماتے ہیں کہ جو قبر کو بکثرت یاد کرتا ہے وہ اسے جنت کا ایک باغ پائے گا۔ اور جو اس سے غفلت میں رہے گا وہ اسے دوزخ کا گڑھا دیکھے گا ۔اے اللہ کے بندوں موت کا خیال رکھا کرواور نجات کی فکر کیا کرو ۔ نجات کی فکر کرنے والا آسانیوں میں رہتا ہے ۔ اللہ سے ڈرو وہ معاف کرنے والا ہے۔زندگی میں کثرت سے ذکر الہی کیا کرو اللہ کو یاد کیا کرو تا کہ اللہ تم کو یاد کرے ۔ہر وقت زکر الہی کرنے والے کو اللہ کی نصرت حاصل رہتی ہے۔ پاک زبان سے اللہ کا ذکر کرنے والے انسان جنت کے حقدار ہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ زکر کرنے والوں کی حفاظت بھی کرتا ہے ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کو پیار ہی ہوتا ہے۔ آیت الکرسی کا کثرت سے ذکر بہت فائدہ مند ہے۔ تلاوت کلام پاک کرنے والوں سے اللہ بہت پیار کرتا ہے اور اس کے لئے دنیا اور آخرت میں بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ جنت اسی کو ہی ملتی ہے جو اس کا حقدار ہوتا ہے ۔ اللہ کو یاد کرتے اور ڈرتے رہنا مومن کے لئے ضروری ہے ۔ قبر کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے ذکر الہی بہت فائدہ مند چیز ہے۔ سورة بقر ہ اٹھائیس میں کہا گیا ہے ۔ کہ تم اللہ کو کیسے انکار کرو گے حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہ تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا۔ اور پھر وہ تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا۔ پھر تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جاناہے ۔