تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
جرمن ادارہ ڈی ای ڈی جسے رضاکارانہ خدمت کا ادارہ بھی کہا جاتا ہے گذ شتہ کئی برسوں سے اس شعبے میں مدد اور تعاون کر رہا ہے اس ادارے میں مختلف پیشوں اور شعبوں کے نو جوان ماہرین رضا کارانہ بنیاد پر خدمات سر انجام دیتے ہیں اس ادارے کے ماہرین کچھ عرصہ سے سماجی بھلائی کے میدان میں بھی تعاون کر رہے ہیں اس ادارے کے وجود میں آنے کے بعد ڈی ای ڈی کی 12ہزار رضا کار ہیں جسے اپنی مدد آپ کے منصوبوں میں مدد دینے کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا ہے وہ وسطی امریکہ کے ملک بنڈوراس میں اپنی مدد آپ کے منصوبوں کے سلسلے میں مشورہ دیتے ہیں اس ادارے میں کئی اور رضاکار بیرون ملک خدمات سر انجام دینے کے لئے ہاتھ بٹاتے ہیں اسی قسم کے منصوبوں میں ہاتھ بٹانے کے لئے افریقہ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں بھیجا جائے گا ۔ ڈی ای ڈی کو امداد تعاون کی سر گرمیوں کے لئے فنڈز اقتصادی تعاون اور ترقی کی وزارت مہیا کرتی ہے ۔ ڈی ای ڈی فنڈز سے ترقی پذیر ممالک میں اپنی سر گرمیوں اور خدمات کے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ ڈی ای ڈی فی الوقت 42ممالک میں ترقیاتی تعاون کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے 23ممالک افریقہ میں لاطینی امریکہ میں اور 8براعظم ایشیا میں واقع ہیں ان ممالک میں ادارہ جن شعبوں میںتعاون کررہا ہے ان میں محنت ، تعلیم و تدریس کے علاوہ جنگلات اور دیہی ترقی کے منصوبوں میں تعاون کر رہا ہے ان کا مقصد چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کو فروغ دینا خاص طور پر ہے ان کے انتظامی شعبے میں مدد دیتا ہے علاوہ ازیں جنگلات کے شعبوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان شعبوں سے متعلق پروگراموں پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔ ڈی ای ڈی کی ان کوششوں سے بہت سے ممالک میں آلودگی کے سبب ماحول کو پہنچنے والے شدید نقصانات کی رفتار میں کمی آگئی ہے ادارہ مختلف شعبوں اور پیشوں میں ہنر ، دستکاریوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دے رہا ہے ہنر کاروں کی تعداد تقریباً 1050ہے جن میں 30فیصد خواتین ہیں بیرون ممالک بھیجنے سے پہلے کئی ماہ جرمن میں تربیت دی جاتی ہے جرمن میں ریٹائرڈ انجینئرز اور اقتصادی ماہرین کو بھی معمولی وظیفوں کے تحت مختلف اداروں میں خدمات کے لئے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جرمن کی ترقی و خوشحالی کا اصل راز بھی یہی ہے کہ وہ منصوبہ بندی کے تحت مختلف امور نپٹاتے ہیں نظم و ضبط ، وقت کی پابندی اور دل لگا کر کام کرنا جرمنوں کا شیوہ ہے جن ممالک میں منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جاتا ہے وہاں ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن منصوبہ بندی ، پابندی وقت اور نظم و ضبط کا فقدان پایا جاتا ہے اسی وجہ سے ہم دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں کل کی بات ہے کہ کوریا جو ہم سے بھی بہت پیچھے تھاجوھم سے سالانہ ملکی بجٹ بنواتا تھا ہم سے کہیں آگے ہے اس کی مشینری کا بین الاقوامی منڈی میں طوطی بولتا ہے بنگلہ دیش جو ہماری کوکھ سے نکلا ہے آگے بڑھ رہا ہے بلا شبہ بنگلہ دیشی عوام با شعور اور تعلیم یافتہ ہے کا م کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں جرمن جاپان کے عوام دو عالمی جنگوں کے گہرے زخموں سے چُور کہاں پہنچ چکے ہیں ہم کیوں نہیں ؟ کیا ہمارے سیاسی لیڈر چور اور ڈاکو ہیں جو سارا کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں ۔