تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
یاد رہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خداوند کریم نے قرآ ن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ ظالم کا ساتھ دینے والے کو ظالم ہی تصور کیا جائے گا تو یہاں مجھے ایک کہاوت یاد آ گئی کہ ایک طو طا اپنی طو طی کے ہمراہ دور دراز کا سفر طے کر کے ایک ایسے شہر میں پہنچا جو مکمل طور پر تباہ و بر باد ہو کر بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکا تھا جس کی اندرون و بیرون جانے والی سڑکیں ریلوے اسٹیشن سبز منڈی منڈی مویشاں پارکس سیوریج کا نظام جنرل بس سٹینڈ ضلع کچہری سرکاری سکولز یہاں تک کہ محلوں کی گلیاں اور نالیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار جبکہ ہر ادارہ رشوت خوری کے نظام کو فروغ دیتے ہوئے بد حالی کا شکار جبکہ عوام بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی اس المناک حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طوطی نے طو طے سے پو چھا کہ یہ کیسے ممکن ہوا یہ سن کر طو طے نے طو طی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر یقینا کسی اُلو کا بسیرا ہے یا پھر گزرگاہ طو طے کی اس بات کو وہاں سے گزرنے والے ایک اُلو نے سن لیا جو بڑے پیا رو محبت کے ساتھ طو طے اور طو طی کے قریب آ کر کہنے لگا کہ آپ شاید دور دراز کا سفر طے کر کے یہاں آئے ہیں لہذا ایک ٹائم کا کھانا میرے ساتھ کھا لو پھر تمھارا جدھر جی چاہے چلے جانا اُلو کی اس پیار بھری دعوت کو قبول کرتے ہوئے طو طے اور طو طی نے اس کے ساتھ کھا نا کھا نا شروع کر دیا کھا نا کھانے کے بعد طو طا اور طو طی جب وہاں سے جا نے لگے تو اُلو نے طوطی کو پکڑ کر طو طے سے کہا کہ یہ اب میری بیوی ہے اسی لیے یہ اب میرے پاس رہے گی اگر تم نے یہاں سے جانا ہے تو بے شک اکیلے یہاں سے چلے جائو یہ سن کر طو طا بڑے غصے کے عالم میں اُلو سے لڑنے لگا جس کی اطلاع اُلو کے خو شامدیوں نے حاکم وقت کو دی جو خوشامدیوں کے بالکل قریب تھا قصہ مختصر یہ فیصلہ حاکم وقت نے خو شامدیوں کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈالتے ہوئے اُلو کے حق میں دے دیا حاکم وقت کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کو سن کر طو طا بڑی بے بسی کے عالم میں وہاں سے جا نے لگا تو اسی دوران اُلو نے طو طے سے کہا کہ تم اپنی طو طی کو اپنے ساتھ لے جائو یہ تو بس میں نے ایک ڈرامہ کیا ہے محض آپ کو سمجھا نے کیلئے کہ شہر اُلوئوں کے گزرنے یا بسیرا کر نے سے تباہ و بر باد نہیں ہو تے یہ رشوت خور بااثر ارباب و بااختیار کی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں ویسے بھی میں آپ کو یہاں آ گاہ کرتا چلوں کہ ہم نے ان بااثر ارباب و بااختیار کے کالے کرتوتوں سے دلبر داشتہ ہو کر شہروں کو چھوڑ کر اپنا بسیرا جنگلوں میں کر لیا ہے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہی کیفیت ہمارے ضلع جھنگ کی ہے جسے نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبہ پنجاب کی حکو مت نے تباہ و بر باد کیا ہے اسے اگر تباہ و بر باد کیا ہے تو صرف اور صرف بااثر ارباب و بااختیار افراد نے کیا ہے جو اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر اور انسا نیت کو سہو لیات کی سیج پر لٹا کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر ہر دور حکو مت میں لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل رہے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہ وہ ناسور ہیں جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب عوام کا خو ن چو سنے میں مصروف عمل ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ بنارسی ٹھگ ہیں جو مختلف روپ بد ل کر غریب عوام کے ار ما نوں کاقتل عام کر کے انھیں بنیادی حقوق سے محروم کر نے میں ہمیشہ مصروف عمل رہے ہیں جن کے اس گھنا ئو نے اقدامات کی وجہ سے آج ضلع جھنگ کی عوام بڑی بے بسی کے عالم میں یہ کہہ کر خا موش ہوجاتی ہے کہ ہمیں انصاف کون دے گا ہم جائیں تو جائیں کہاں ہر طرف گھپ اندھیرا ہے روشنی کی کرن کہیں سے بھی نظر نہیں آ رہی اور تو اور مو جودہ حکو مت کے بھی سارے دعوے جس میں غریب عوام کو فل الفور اور سستا انصاف ملنے کا بھی دعوی تھا بس ایک دیوانے کا خواب بن کر رہ گئے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج بھی بااثر ارباب و بااختیار اپنے کالے کرتوتوں کو بڑی دیدہ دلیری سے فروغ دیکر ظلم و بر بریت کا بازار گرم کرنے کے ساتھ ساتھ انسا نیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے بقا کے حصول کی خا طر نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز و اقارب کو قربان کر دیا تھا میں انہی سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر اپنے ہاتھوں میں قلم لیے سوچ رہا تھا کہ میں ضلع جھنگ کی مظلوم عوام اور بالخصوص صادق اور امین ماتحت عملہ کو ان بااثر ارباب و بااختیار کے چنگل سے کیسے آ زاد کروائوں کہ اسی دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی وہ تقریر یاد آ گئی کہ کرپشن ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے نیچے سے نہیں بس مجھے اسی تقریر میں روشنی کی کرن نظر آئی جہاں پر سے جھنگ کی مظلوم عوام اور ماتحت عملہ کو عدل و انصاف مل سکتا ہے میں انہی سوچوں میں مبتلا تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد کا ایک وفد میرے دفتر میں داخل ہو کر بڑے غصے کے عالم میں کہنے لگا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جو پیغمبری پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا چو تھا ستون سمجھا جا تا ہے لیکن افسوس کہ اس سے وابستہ بعض افراد نجانے کس مصلحت کے تحت بااثر ارباب و بااختیار کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ان کی معمو لی کاروائی کو دنبک کاروائی تحریر کر کے ان کو صادق و امین ظا ہر کرتے ہیں اور اگر یہ واقعہ ہی صادق اور امین ہیں تو ضلع جھنگ تباہ حالی کا شکار جبکہ یہاں کی عوام اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم کیوں ہے جبکہ ماتحت عملہ ان کے ظالمانہ اور ہتک آ میز رویے سے دلبر داشتہ ہو کر یہاں سے اپنے تبادلے کروا کر دوسری تحصیلوں اور اضلاع کا رخ کیوں کر رہے ہیں جبکہ باقی ماندہ ماتحت عملہ ان ناسوروں کی نا جا ئز خواہش کی تکمیل کو بر وقت ادا نہ کر نے کے جرم میں معطل ہو کر بے بس زندگی گزار رہے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ بااثر ناسور بارہ بجے سے قبل اپنے دفتر میں آ نا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جس سے یوں محسوس ہو تا ہے کہ یہاں پر قانون کی نہیں ان چند ایک بااثر ناسوروں کی حکمرانی ہے یہ ناسور ضلع جھنگ کو اپنی جا گیر جبکہ ماتحت عملہ کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہیں جس کا واضح ثبوت میو نسپل کا رپو ریشن جھنگ کے چیف آ فیسر خالق داد وغیرہ ہیں جو مذکورہ کارپو ریشن کو اپنی جا گیر سمجھتے ہوئے بارہ بجے سے قبل اپنے دفتر میں آ نا غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ ماتحت عملہ اور عوام کے سا تھ بد تمیزی اور بد اخلاقی کا مظا ہرہ وہ اپنا پیدا ئشی حق سمجھتے ہیں جس کے نتیجہ میں چند ایک افراد کی ان کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہو چکی ہے لیکن مذکورہ موصوف ہر بار بڑھکیں مارتے ہوئے کہتا ہے کہ اوئے میں سر گو دہا کا گا ڑھا ہاں میری پہنچ اُوپر تک ہے تو یہاں ہم آپ کی وساطت سے مذکورہ مو صوف کو آ گاہ کر دینا چاہتے ہیں کہ ہر انسان کا کردار ہی اُس کے خون اور خاندان کی عکاسی کرتا ہے