پروفیسر شمشاد اختر
برصغیر پاک و ہند کے نہایت ممتاز ،معروف اور مقبول عوام و خواص بزرگان دین اور صوفیا میں حضرت علی ہجویری ؒ کو ایک نمایاں اور محترم مقام حاصل ہے ،حضرت علی ہجویر ؒ کا زمانہ ( ۰۰۴ ھ تا ۵۶۴ھ) بمطابق ۲۷۰۱ءہے ۔سلسلہ نسب : حضرت علی بن سید عثمان بن سید علی بن عبدالرحمن بن سید شجاع بن ابو الحسن اصغر بن زید ؒ بن حضرت امام حسنؓبن حضرت علیؓبن ابی طالب ،اس طرح آپ ہاشمی سید ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں حضرت علی ؓ سے جا ملتا ہے ۔سلسلہ طریقت :شیخ علی ہجویرؒ مرید حضرت شیخ ابوالفضل الختلی ؒمرید حضرت شیخ خضری ؒ مرید حضرت جنید بغدادی ؒ مرید حضرت شیخ سری سقطی ؒ مرید حضرت داﺅد طائیؒ مرید حضرت حبیب عجمی ؒمرید حضرت علی ؓ اور نبی کریم ﷺ ۔
کشف المحجوب کا تعارف : تصوف پر لکھی جا نے والی عربی کی پہلی کتاب شیخ حارث المحاسی ؒ کی ” کتاب الرعایہ “ ہے فارسی میں یہ تقدم اور فوقیت ” کشف المحجوب “ کو حاصل ہے جو حضرت مخدوم ہجویری ؒ کی تصنیف ہے اور تصوف کے مآخذمیں اس کتاب کو سند کا درجہ حاصل ہے ۔کشف کا معنی کھولنا ،محجوب کا معنی چھپی ہوئی چیز حضرت داتا گنج بخش ؒ نے اپنے رفیق ابو سعید ہجویری ؒ کی خواہش پر کتاب لکھی جو تصوف تصوف کا لٹریچر اور ابتدائی ماخذ ہے ۔اس کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں ، حصہ اول:ابتدائیہ،کتاب لکھنے اور کشف المحجوب نام رکھنے کی وجہ ،تحصیل علم کی ضرورت ،علم کے ساتھ فقر کا ضروری ہونا ،تصوف کا معنی و مفہوم اور ارتقاءکا تذکرہ کیا ۔ ٭اسلا می شریعت کے ماخذ ( قرآن و سنت و اجماع ) کا بیان ۔٭چار خلفاءراشدین کا تذکرہ٭پانچ اہل بیت ( امام حسنؓ ،اما م حسین ؓ،امام زین العابدین ؓ،امام باقر ؓ،امام جعفر الصادق ؓکا تذکرہ ۔٭چار تابعین ( حضرت اویس قرنی ؒ ،حضرت ہرم بن حیان ،حضرت حسن بصری ؒ، حضرت سعید بن المسیب ؒ) کا تذکرہ ٭چونسٹھ ( ۴۶ ) تبع تابعین کا تذکرہ خیر ٭دس متاخرین ائمہ و مشائخ کاتذکرہ خیر ٭صوفیاءاور اہل طریقت کی اقسام اور ان کے مذاہب ٭ولایت کا ثبوت اور کرامت و معجزہ کا بیان ہے۔
حصہ دوم : اس حصے میں گیارہ (۱۱) محجوبات سے کشف ( پردہ اٹھایا ) کیا گیا ہے ۔ (۱) معرفت الہی (۲) توحید کا بیان (۳) ایمان کابیان (۴) طہارت کا بیان (۵) نماز کا بیان (۶) زکوة کا بیان (۷) روزہ کا بیان (۸) حج کا بیان (۹) آداب زندگی (۰۱)مشائخ کے کلام اور صحبت (۱۱) سماع کی اہمیت اور معیار ۔سید علی ہجویرؒ کی ہمہ جہت شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشف المحجوب میں ہر قاری کی ذہنی سطح کو مدّ نظر رکھتے ہوئے آپ نے تحریر کے مختلف اسالیب اور طریقے اختیار فر مائے ہیں ۔ قرآن کی (۴۷۲ )آیات (۵۳۱) احادیث مبارکہ اور( ۸۷ )عربی کے معروف اشعار ،تین سو (۰۰۳) صوفیا ءکے اقوال اور تصوف کی بیس (۰۲) سے زیادہ کتابوں کے حوالہ جات نقل کیے ہیں ۔ الغرض یہ کتاب تصوف کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں متنوع پھول سجے ہیں ہر پھول کا رنگ جدا اور خوشبو منفرد ہے ،کتاب میں علی ہجویری ؒ ان نام نہاد صوفیا ءکا تعاقب کیا ہے جو اس لبادے میں تصوف کی بدنامی اور صوفیاءکی رسوائی کا باعث بنتے ہیں یہ کتاب علم و عمل کا ایک ایسا مرقع ہے جس کی ہر دور میں ضرورت محسوس ہوتی ہے اور جادہ حق پر چلنے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیتی ہے ،اس کتاب کے بالاستعاب مطالعہ کے بعد یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ تصوف کو سمجھنے کے لئے اسی ایک کتاب کا مطالعہ کا فی ہے جس سے تصوف کے تمام گو شے پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں اور کوئی الجھن باقی نہیں رہتی ۔
جس طرح حضرت حسن بصری ؒ سے لے کر زمانہ حال کے کسی صاحب حال اور باعمل صوفی نے فقر و تصوف پر اپنا اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے اور ہر نقطہ نظر قرآن و حدیث کی روح کے قریب تر ہے ،اسی طرح صاحب کشف المحجوب نے بھی اپنی اس شہرہ آفاق کتاب میں اس پر بحث کی ہے اور بڑے خوبصورت اور روح پرور پیرائے میں فقر کی وضاحت اور تصوف کی تشریح کی ہے ۔سید علی ہجویرؒ نے اثبات فقر کے عنوان سے باقاعدہ ایک باب قائم کیا اور تصوف پر بحث کی ہے ۔، فقیر کون ہے ؟ کے عنوان کے تحت آپ لکھتے ہیں ” فقیر وہ ہے جس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہو اور کسی چیز کے حاصل ہو نے سے اسے کوئی فرق نہ پڑے وہ اسباب ِ دنیا کے موجود ہو نے سے اپنے آپ کو غنی نہ سمجھے اور ان کے نہ ہو نے سے اپنے آپ کو محتاج نہ جانے ،اس کی نظر میں اسباب کا ہونا نہ ہو نا برابر ہے ا ٓپ ؒ نے ایک جگہ بڑی معنی آفرین اور خوبصورت بات ارشاد فر مائی ہے ،کشف المحجوب میں اثبات فقر کے حوالے سے ” امراءصاحب ِ صدقہ ہوتے ہیں اور فقراءصاحب صدق،اور صدقہ ہر گز صدق کے برابر نہیں ہو سکتا پس در حقیقت فقر ایوب ؑ ،غنائے سلیمان ؑسے کسی صورت کم نہیں اللہ تعالی نے حضرت ایوب ؑ کو صبر کا عظیم مظاہرہ فر مانے پر ” نعم العبد “ یعنی بندہ خوب کہا ٹھیک اسی طرح سلیمان ؑ کو ملک و حکو مت ملنے پر بھی ” نعم العبد“ فر مایا جب خدائے رحمان کی رضا حاصل ہو گی تو فقر ایوبؑ اور غنائے سلیمان ؑ میں کچھ فرق نہ رہا “
تصوف کے حوالے سے بھی کشف المحجوب میں سیّد علی ہجویر ؒنے اہل تصوف کی تین اقسام بیان کی ہیں (۱) صوفی (۲) متصوف(۳)مستصوف، ان کی وضاحت فر ماتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔ (۱)”صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فانی ہو کر حق کے ساتھ باقی ہو گیا ہو ،طبعی خواہشات اور ان کے تصرف سے آزاد ہو کر حقیقت الحقائق کے ساتھ مل گیا ہو ۔(۲) متصوف” وہ ہے جو مجاہدے کے ذریعے اس مقام کے لئے کوشاں ہے اور راہ حقیقت کی تلاش میں اپنے آپ کو صوفیاءکے طریقے پر کاربند رکھتا ہو ۔ (۳) مستصوف: وہ ہے جو دنیوی مال و متاع کے حصول اور جاہ منصب کی لالچ میں صوفیا ءکی نقالی کر رہا ہو اسے نہ تو اوپر والے دونوں گروہوں سے تعلق ہوتا ہے اور نہ اسے طریقت کے بارے میں کوئی آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ مشائخ عظام نے ایسے لوگوں کے بارے میں فر مایا ہے مستصوف صوفیا ءکے نزدیک ” ذباب “ یعنی مکھی کی مانند ہے اور غیر صوفیا ء(عوام) کے لئے ” وہ ذیاب “ یعنی بھیڑیے کی طرح ہے ۔ الغرض صوفی ” صاحب اصول “ ہوتا ہے متصوف ” صاحب اصول “ اور مستصوف ” صاحب فضول “ یعنی راہ حق سے جدا ہوتا ہے ۔ علی ہجویر ؒ کا یہ فرمان کہ فقیر کی اصل متاع دنیا ترک اور اس سے علیحدگی نہیںبلکہ دل کا ا س دنیاکی محبت سے خالی اور بے نیاز کرنا ہے۔