پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی۔ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں ہندواور مسلم ۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہندو مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے تھے۔ ان حالات نے مسلمانوں کو الگ وطن حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اس سے پہلے مسلمان کانگرس پارٹی کے ساتھ چل رہے تھے مگر پھر انہوں نے ایک الگ پارٹی بنائی جس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ رکھا گیا۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے تن من کی بازی لگادی۔ الگ وطن حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے کسی بھی چیز کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ماوؤں نے اپنے بیٹوں کی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔بہنوں نے بھائی کی قربانی دی اور بیویوں نے اپنے سہاگ تک لٹا دیے۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’بن کے رہے گا پاکستان ، لیکر رہیں گے پاکستان‘‘
23 مارچ قومی دن ہے ۔ 1940مسلمانانِ برصیغر نے اپنی نمائندہ قومی جماعت ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘کے تاریخی اجلاس میں اپنے عظیم محسن اور محبوب ترین رہنما حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک تاریخی قرارداد منظورکی ۔اس قرار دادمیں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کرکے مسلمان اکثریت پر مشتمل علاقوں میں آزادخود مختار ریاستیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اگرچہ قرار داد لاہور میں لفظ پاکستان کا استعمال نہیں کیا گیا تھا مگر پھر بھی اس قرار داد کو قرار داد پاکستان کے مقدس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چوہدری رحمت علی نے 1933 میں اپنے پمفلٹ ’’نو اینڈ نیور‘‘میں اس کیلئے پاکستان کا مقدس نام تجویز کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ دوستوں اور دشمنوں دونوں نے ہی قرار داد لاہور کو قرار داد پاکستان کا نام دے کر اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کی حمایت اور مخالفت میں سردھڑ کی بازی لگا دی اس قرار داد کی منظوری کے صر ف سات سال ،دو ماہ اور گیارہ دن بعد 3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے منصوبہ کا اعلان کرکے قیام پاکستان کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا گیا اور 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشہ پرسب سے بڑی اسلامی نظریاتی ریاست معرض وجود میں آگئی۔
آج تجدید عہد کا دن ہے اور سوچنے کا بھی دن ہے کہ جس ملک کی 23مارچ 1940کوبنیاد رکھی کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ جو جذبہ اس وقت کے لیڈروں میں تھا کیا وہ جذبہ آج کے لیڈروں میں ہے؟یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصیغر جنوبی ایشیا ء میں پاکستان کا قیام مسلمانوں کی قومی فتح ہے۔انگریز سامراج کے دواقتدار میں مسلمانوں پر قیامت خیز مظالم ڈھائے گئے اور ان کو سیاسی ،معاشی ،معاشریت ،تعلیمی ،قانونی اور مذہبی حقوق سے محروم کرنے اور پسماندہ تربنانے کیلئے ہرمذموم کوشش اور کاروائی کی گئی ۔قرارداد لاہور کی منظوری کے ساتھ ہی مسلمانوں برصیغر حتمی طور پر اپنی منزل مقصود اور اپنے نصب العین کا تعین کرکے آزادمسلم ریاست کے قیام کا فیصلہ کرلیا تھا۔ انگریزوں کیلئے برصغیرکی تقسیم اس کے عالمی مفادات کے منافی تھی جبکہ ہندوؤں نے اس مطالبہ کی شدید ترین مخالفت کی۔ گاندھی کی سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو جنہوں نے محض ہندومت کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا ایک قوم قرار نہیں دیئے جاسکتے تھے۔ گاندھی نے کہا کہ اس کے وجود کے تو دوٹکڑے ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہندوستان کے دو ٹکڑے نہیں ہونے دے گا۔مختصر یہ کہ ہندوؤں ،انگریزوں اور نیشنلسٹ مسلمانوں نے مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
قائد اعظم نے مطالبہ پاکستان کے مخالفین کے اعتراضات کا بڑے مدبرانہ ،بے باکانہ اور جرات مندانہ انداز میں جواب دیا۔ قائداعظم نے فرمایا :’’قدرت نے ہندوستان کو پہلے ہی تقسیم ررکھا ہے ہندوستان کے طبعی نقشہ پر مسلم انڈیا اور ہندوانڈیا پہلے سے موجود ہیں۔ وہ ملک کہاں ہے جسے تقسیم کیا جارہا ہے؟وہ قوم کہاں ہے جسے تقسیم کیا جارہا ہے؟مسلمان ایک الگ قوم ہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے اعتبار سے ایک قوم ہیں۔ مرکزی قومی حکومت کہاں ہے جس کے اختیار کی خلاف ورزی کی جارہی ہے؟اگر ہندوستان نے سارا ہندوستان حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس سارے سے محروم ہوجائینگے لیکن وہ مسلمانوں کیلئے اگر ایک تہائی پر رضا مند ہوجائیں تو انہیں وہ تہائی مل جائے گا مسلمان پاکستان کا مطالبہ ہندوستان سے نہیں کررہے ہیں کیونکہ پورا ہندوستان کبھی بھی ہندوؤں کے قبضہ میں نہیں رہا ہے یہ مسلمان تھے جنہوں نے ہندوستان فتح کی اور اس پر سات سوسال حکمرانی کی یہ انگریز تھے جنہوں نے ہندوستان مسلمانوں سے چھین لیاتھا مسلمانوں کامطالبہ انگریزوں سے تھا جن کے قبضہ میں ہندوستان ہے یہ کہنا سراسرحماقت ہوگی کہ ہندوستان ہندوؤں کی ملکیت ہے ‘‘۔
مختصر یہ کہ ہندوؤں نے مطالبہ پاکستان کی شدید مخالفت کی اور انگریزوں نے اپنے عالمی مفادات پیش نظر ہندوستان کی سیاسی وحدت کو برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کی ۔مسلمانوں نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت وراہنمائی میں بے مثال قربانیاں دیں اور قائد ااعظم نے مطالبہ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے اور دو قومی نظریہ کو روشناس کروانے کے لیے برصیغر کے چپے چپے کا دورہ کیا سیاسی کارکنوں صحافیوں ،وکلاء ،طلباء وخواتین سمیت ہر ایک نے تحریک پاکستان میں قربانیاں دے کر اپنا تاریخی کردار اداکیا۔آخرکا ر وہ مبارک کھڑی آپہنچی جب 14اگست 1947 کا مطالبہ پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل گیا اور دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی نظریاتی اسلامی ریاست معرض وجود میں آگئی اگرچہ انگریزوں نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو غیر محفوظ اور کمزور بنانے کی ہر مجرمانہ کاروائی کی تھی مگر ناگزیر حالات میں مسلمانوں نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو قبول کرکے انگریز اور ہندسامراج سے چھٹکا را حاصل کرلیا۔
قیام پاکستان سے آج تک غیر مسلم طاقتیں پاکستان کے خلاف ہیں اور وہ پاکستان کو ختم کرنے کے در پر ہیں۔ جس میں وہ کچھ کامیاب بھی ہوئے کیونکہ پاکستان کے ایک حصے کشمیر پرانڈیا قابض ہے اور دوسرے انہوں نے اپنی مکارانہ چال چل کرپاکستان کے ایک حصے کوبنگلہ دیش کی صورت میں الگ وطن بنوادیا۔آج پھر کچھ دشمن طاقتیں اور غدار وطن پاکستان کو دولخت کرنے کے در پر ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان مستحکم ہو۔
آئیے 23مارچ کے دن تمام مسلمان یہ عہد کریں کہ پاکستان کی ہر حال میں حفاظت کریں گے۔ اس کی ترقی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کریں گے۔ دشمن وطن کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ غدار وطن کو ختم کرکے یک جان ہونے کا ثبوت دیں گے۔ اپنے قائد محمد علی جناح کے دیئے ہوئے اس وطن عزیزکو خوشحال بنائیں گے۔اپنے ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود کریں گے۔ انشا ء اللہ