تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے رہنما کی چادر پہنے یعنی قول اور فعل میں اپنے رہنما کی پیروی کرے ہونہار طالب علموں کی طرح ہمیشہ اپنا سبق دہراتا رہے اور کبھی بھولنے نہ پائے سکول کی جماعت بندی کی طرح راہِ سلوک کے بھی درجے ہیں ان درجہ جات سے وہی طالب علم صادق کامیابی سے گذر سکتاہے جو تمام اسباب کو درجہ بدرجہ یاد رکھتا ہو مالی کی طرف دیکھو وہ کس طرح باغ کی آبیاری کرتا ہے طرح طرح کی آرائش وزیبائش میں مصروف رہتا ہے کیا ری کیاری ، ڈال ڈال اور پات پات کی نگہبانی کرتا ہے کہیں کھاد ڈال رہا ہے تو کہیں گھاس پھوس اور غیر ضروری پودوں سے کیاریا ں صاف کر رہا ہوتا ہے کسی پودے کی ترا ش خراش ہورہی ہے تو کہیں پھلے پھولے کسی پودے کو ڈھانپ رہاہے کہ سرد مہری کا کار نہ ہونے پائے اس کی یہ کو شش باغ کی آرائش و زیبائش اور ترقی کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت کرے تاکہ یہ باغ جنت کہلائے اسی طرح مرد کامل کو بھی یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ اپنے مریدین کی دیکھ بھال میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑے اور ان کے دل کی کیاریوں سے نفس ہوا اور ہوس کی گھاس پھوس نکال کر باہر پھینک دے یہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ مرید آگے بڑھے اور ترقی کی منزلیں طے کر کے منزل مقصود تک پہنچ جائے صاحب نطر کو مخلوق کی دوزخ کی آگ سے بچانے کے لئے بیتاب ہے اسے مخلوق کا پیوند ما سوائے کاٹ کا خالق کے ساتھ ملانا ہوتا ہے وہ خود خالق کی رضامندی کا جویا ہے اور اس کے آگے جھکا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ مخلوق خدا بھی خالق کے آگے جھک جائے اور سر تسلیم کردے مناہیات سے بچے اور اوامر کو بجا لائے مردانِ حق سنا ش کے پاس دنیا کی زینتیں اور زیبائش نہیں ہوتیں اور اگر اس کے سچے رسولﷺ کی پیروی کی تلقین ہو تو ان کے دل ایسی چیزوں کی خواہش سے ہمیشہ خالی رہتے ہیں وہ کوئی چیز خواہش کے ہاتھ سے نہیں لیتے اور جو چیز بلا خواہش میسر آجائے اس میں بخل نہیں کرتے کیونکہ انہیں حق کے سوا کسی ہچیز سے رغبت نہیں ہوتی وہ تو مقام آخرت کے حاکم ہیں مومن کے لئے دنیا دُکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے اور مقام آخرت ان کی خوشیوں اور راہوں کا ہم مسکن ہے دنیا میں حضور رسالت مآب ﷺ نے طرح طرح کے دُکھ اُٹھائے مصیبتیں جھیلیں بھوک سے تنگ آکر شکم مبارک پر پتھر باندھے اور جنگ احد میں دندان مبارک شہید ہوئے میں اور میرے دوست پرویز سبحانی بھی اسی ہی محفلوں کے متلاشی ہوتے ہیں بے سکونی ،کرب و ابتلاکی دلدل میں دھنسے مسائل و مشکلات کی چَکی میں پستے ہوئے بالآخر اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ کوئی مردانِ حق ہمیں بڑھ کر سینے سے لگا لے اور ہم امن و سکون کی جنت میں داخل ہوجائیںگذشتہ دو اتواریں ہم نے ایک فقیر درویش کی محفل میں گزاری روحوں کو روحانیت سے لبریز کر دینے والی یہ محفل دل کو بھائی ۔ ضرور مگر من پاپی ہوتو سکوں کہاں نصیب ہوتا ہے دل پر پتھر باندھ کر فقیر درویش کے قدم بوسی کا شرف تو حاصل ہوا مگر ذہنی انتشار اعصابی تناﺅ کی غلاظتوں نے مزاحمتی رویہ اختیا ر کیا س مرد حق کی محفل میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازموں اور افسروں کی کثرت ہوا کرتی ہے نوجوانوں میں جوش اور ولولہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا اللہ کے ذکر و اذکار سے مذین یہ محفل دلوں میں نور کی بارش کر دیتی ہے دلوں کے بند کواڑ کھلنے لگتے ہیں اور روحانیت کا سحر ناچنے لگتا ہے ۔ حضرت خواجہ کرامت حسینؒ مرحوم کے روحانی وجود سے جنم لینے والے فقیر درویش حضرت خواجہ محمد ایوب قریشی ؒ کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کے پھول روحانی محفل کو معطر کر دیتے ہیں اس محفل کا سماں عجیب رنگ بکھیرتا ہے ۔ جی کرتا ہے اللہ ہو اللہ ہو کے سحر میں کھو جائیں ۔ حضرت خواجہ ایوب قریشی ؒ کا روحانی خطاب دل میں اُتر جاتا ہے ان کی ہر بات اور ہر لفظ اللہ اور قرآن حدیث کے حوالوں سے مذین ان کی تقریر مومن بننے پر مجبور کرتی ہے وہ اپنے مرید خاص پر محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں صبح دس بجے سے لیکر تین بجے تک اس محفل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتیں دل و دماغ کو روحانی سکون بخشتی ہیں مگر میں بد وقسمت شخص فقیر درویش کی نظروں میں اپنا مسکن بنانے میں ناکام رہا میری دُعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ مجھے بھی کسی مرد حق کا ادنیٰ سا غلام بنادے تاکہ دل میں پائی جانے والی غلاظتیں دماغ میں پائے جانے والا یطانی فتور ہمیشہ کے لئے دُور ہوجائے حضرت خواجہ کرامت حسینؒ مرحوم کی لڑ پکڑنے میں ناکام رہنے والا بد قسمت حضرت خواجہ محمد ایوب ؒ کی صحبت میں حاصل کرنے میں بھی ناکام لوٹا ۔ اللہ تعالیٰ مجھے کلبی سکون عطا فرمائے اور میرے جیسے لوگوں کو بھی روحانی قدروں سے سر شار کرے ۔ تمنا ہے کوئی رہبر و رہنما مل جائے دنیا نہ صحیح آخرت تو سنور جائے ( آمین ثمہ آمین ) بلا شبہ نگاہِ مر د مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں …جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔
تمنا دردِ دل کی ہو تو خدمت کر فقیروںکی …یہ گوہر نہیں ملتا بادشاہوں کے خزینوں سے ۔