تحریر. ..سردار سجاد احمد سجاد ۔۔۔
آل پاکستان بلہ ایسوسیشن ملک بھر سے جنگلی بلوں اور بلیوں کا ایک اجلاس عزت ماآب جناب بھورا بلہ آف عمرہ جاتی کی زیر صدارت ایک نامعلوم مقام پر منعقد ہوا ۔ جس میں جنگلی بلوں کے تمام گروپوں نے شرکت کی ۔۔ اور وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جنگلی بلوں کے خلاف شروع کیا جانے والا ظالمانہ آپریشن فوری طور پر بند کیا جائے ۔۔ اب تک پکڑے گئے تمام بلوں کو باعزت رہا کیا جائے اور ہمیں ان کی سلامتی اور باحفاظت واپسی کی ضمانت دی جائے ۔ آل پاکستان بلہ ایسوسیشن کے ایک ترجمان نے جناب منور حسن اور عمران خان سے بھی اپیل کی کہ وہ ہمارئے حق میں اپنی آواز اٹھائیں اور اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ صاحب سے بھی کہ وہ ہمارئے خلاف شروع کیے گئے اپریشن کو رکوائیں انہوں نے ایم کیو ایم کے لیڈر جناب الطاف حسین سے بھی مطالبہ کیا کہ حق پرستی کا تقاضا ہے کہ اپ فوری طور پر ایک ٹیلفونک خطاب فرما کر ہمارے حقوق کی بات کریں ۔۔ اس موقع پر جناب عزت ما آب بھورا بلہ نے فرمایا کہ ہمارئے خلاف کوئی بھی کاروائی برداشت نہیں کی جائے گی اور ہم جوابی کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جسے ملک اور معاشرے میں جہاں انسان انسانیت کا خون کر رہا ہے ۔۔ جہاں مساجد میں ہزاروں افراد کو قتل کرنے والے آزاد اور اس وطن کے راہ سے بھٹکے ہوئے بیٹے ہیں ۔۔ جہاں چنگیز خان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے انسانی کھوپڑیوں سے فٹبال کھیلا جاتا ہے اور ان کو سامنے سجا کر تصاویر بنوا کر شائع کی جاتی ہیں ۔ جہاں مسلمان اپنے ہی مسلمان کو قتل کر کے خوشیاں مناتے ہوں ۔ جہاں کسی کی جان و مال عزت و آبرو تک محفوظ نہ ہو ۔ جہاں ملک کے خزانوں کو لوٹنے والے ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں ۔ چوروں کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ۔ معاشرہ میں جو جتنا بڑا بدمعاش اور غنڈہ ہے وہ اتنا ہی معزز اور معتبر ہے ۔۔۔جہاں دن دھاڑے بنکوں اور گھروں میں ڈاکے ڈالے جاتے ہیں ۔۔ جہاں کا میڈیا امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے سالانہ کروڑو ڈالر کے فنڈز لیکر بھی ملک کا معزز ترین ادارہ رہتا ہے ۔۔جہاں کے جج اپنے عدم تحفظ اور خوف کی بنا پر مقدمات کے فیصلے نہیں کرتے ۔۔ جہاں کے عوام اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے اوپر کئےجانے والے مظالم کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے جہاں کا تھر سومالیہ اور اتھوپیا کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ جہاں بچے قحط اور بھوک سے سوکھ کر مر رہے ہیں ۔ جہاں کے مولوی بہتی گنکا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور اپنے مفادت کی خاطر قتل اور اقدام قتل کو بھی جائز قرار دے رہے ہوں ۔۔۔ جہاں کے شہری تو روٹی روٹی کے محتاج ہوں مگر حکمران قیمتی مور کا شغل رکھتے ہوں ۔ ان کےگھوڑے سیب کے مربے کھاتے ہوں ۔۔ ایسے ملک کے حکمرانوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارئے ایک ہفتوں سے بھوکے بھائی کے خلاف کوئی کاروائی کریں ۔۔ہمارا بھوکے بھائی نے تھر کے بچوں کی حالت دیکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس کو بھی ایسی ہو صورتحال درپیش تھی ۔۔ جب تک وہ ملک کے معاملات درست نہیں کر دیتے اور اس بات کا اعلان نہیں کرتے کہ اگر دریا سندھ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرئے گا تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد ہو گی ۔ اس وقت تک بلے مور کھاتے رہیں گے ۔۔ انسان انسان کو کھاتے رہیں گے ۔۔ بھوک تھر کے طرح بچوں کو کھاتی رہی گی ۔۔ حکمران ملک کو کھاتے رہیں گے ۔ انسانیت انسانیت کو کھاتی رہے گی ۔۔ اگر ان سب چیزوں کا تدارک کرنا ہے تو پھر انصاف کرو ۔۔ انصاف اپنے اپ سے شروع کرو اور ملک کا لوٹا ہو ا دھن ملک میں واپس لاو ۔۔ اپنے کارخانوں اور محلوں کا حساب دو ۔۔ پھر ہم سے بھی حساب مانگنا ۔۔۔ آپ کو وہ واقعہ تو یاد ہوگا کہ جب عمر رضی اللہ تعالی کی وفات ہوئی تو ایک چرواہائے نے ہزاروں میل دور لوگوں سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آج عمر رضی اللہ تعالی اس دنیا سے رخصت ہو گے ہیں ، لوگوں نے چرواہاے سے پوچھا کہ تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ میری بکریاں اور جنگل کے بھیڑٰے ایک ہی جگہ سے پانی پیتے تھے کبھی کسی بھیڑیے کی جرت نہیں ہوئی کہ وہ میری بکریوں کو نقصان پہنچائے مگر اج ایک بھیڑیے نے میری بکری مار ڈالی ہے ۔۔ پہلے اپنے اپ کو درست کرو ۔۔ اپنا نظام درست کرو ۔۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو ں۔۔۔ جب اپنے آپ کودرست کر لوں گے تو پھر کسی بلے کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ تمھارئے مور کو کھائے ۔۔