آخری قسط
تحریر: مہرسلطان محمود
پہلی دوقسطوں میں بہت اختصار کیساتھ ڈاکٹرز اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی وضاحت کی تھی۔اس قسط میں ڈاکٹرز اور کلیریکل سٹاف ہسپتال سے لیکر سیکریرٹرایٹ تک میں موجود خلیج کازکر خیر ہوگا آخر کیوں ڈاکٹرز اور کلیریکل سٹاف میں ہم آہنگی کی فضا نہیں ہے اکثروبیشتر ڈاکٹرز حضرات اپنے کلیریکل سٹاف کو صلواتیں سناتے ہوئے ملتے ہیں تو دوسری جانب کلیریکل سٹاف کی کیا مجبوریاں ہیں ماسوائے چند ایک کہ جو عادی مجرم ہیں ہسپتال میں موجود کلرک صاحبان میں جو پرانے ہیں انہیں ہر قسم کے فارم وغیرہ کو مکمل کرنے کا ہنر تو آتا ہے مگر جدید ٹیکنالوجی سے مستفید کیسے ہونا ہے اس سے ابھی تک وہ نابلد ہیں بہت تھوڑے ہیں جنہوں نے ہاتھ پاؤں مارکر جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کاطریقہ سیکھ لیاہے اسی طرح نئے تعینات ہونے والے کلرک صاحبان میں بھی کچھ ایسے ہیں جو سفارشی یا کوٹہ سسٹم کے تحت بھرتی ہوئے ہیں انہیں بھی کمپیوٹر پر کام کرنا نہیں آتاہے، کچھ نے تو سیکھا اور کچھ ابھی تک نکھٹو کے نکھٹو ہیں۔ چونکہ پاکستان میں دفتری زبان انگلش ہی چل رہی ہے پر عبور نہ ہونے سے خط وکتابت کے وقت ہسپتال ایڈمنسٹریشن اور ڈاکٹرز کو شدید قسم کے مسائل کا سامناکرنا پڑتاہے۔علاوہ ازیں جو کام کرنے والے بندے ہیں ان کے مسائل بھی اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے وہ بروقت ڈاکٹرز ودیگر عملے کے کام نہیں کرپاتے ہیں اس طرح تمام سٹاف کلریکل سٹاف کو کام چور،رشوت خور یا ایسے دیگر القابات سے نوازتاہے۔ ڈاکٹرز اور کلیریکل سٹاف میں موجود خلیج میں جہاں کچھ اچھے بندے موجود ہیں وہاں کچھ حد سے ذیادہ چالاک بھی ہیں جو جان بوجھ کر ہر کام کو لٹکاتے ہیں تاکہ دوسری کمائی کی راہ ہموار ہوسکے بعض دفعہ تو بہت تگڑی سفارشوں کے باوجود کلریکل سٹاف تمام قسم کے سٹاف کے کاموں کو دیوانی کیسز کی طرح لٹکائے رکھتے ہیں مثال کے طور پر ضلع قصور میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ملازم کا کام سی ای او ہیلتھ کے اکاؤٹنٹ کے پاس زیر تکمیل تھا وہ باربار چکر لگاتارہاہے مگر وہ حیلے بہانوں سے ٹال دیتاتھا اخر ایک دن سی ای او کے پاس وہ ملازم دوبارہ پیش ہواتب سی ای او ہیلتھ نے اس ملازم کو اپنی جیب سے ایک ہزار کا نوٹ دیا اور اسے کہاکہ جاو اسے جاکر دو اب کام ہوجائے گا اس ملازم نے وہ ہزار روپے اس اکاؤنٹنٹ کو جاکردیا اس نے فورا اس ملازم کا کام کردیا تب سی ای او ہیلتھ نے اس اکاؤنٹنٹ کا تبادلہ ایک دیہاتی علاقے میں بطور سزا کردیا۔کئی جگہوں پر آوے کا آوا ہی بگڑاہوتاہے جس میں مثال کے طور پر محکمہ ہیلتھ فیصل آباد کا زکر کرنا ہی مناسب ہے ایک ڈاکٹر صاحب بے ہوشی کی ٹریننگ کیلئے فیصل آباد سے لاہور آگئے تھے ان کی بے ہوشی کی ٹریننگ کا الاؤنس انہیں ملناباقی تھا انہوں نے لاہور سے کاغذات مکمل کرواکر اپنے ہسپتال کے متعلقہ کلرک کو دیئے جس نے اپنی تئیں کام مکمل کرکے الاؤنس کا کیس سی ای او ہیلتھ کے آفس میں جمع کروادیا اس کے بعد جو سلوک سی ای او ہیلتھ اور ان کے اکاؤٹنٹ نے اس ڈاکٹر صاحب کیساتھ کیا الاامان والحفیظ والی بات کہہ سکتے ہیں ”جیسے جج صاحبان تاریخ پہ تاریخ دیتے ہیں اسی طرح یہ لوگ چکر پہ چکر لگواتے ہیں“ ماسوائے ایک فنانس افسر محکمہ ہیلتھ فیصل آباد بشارت قدیر کے اکاؤنٹ آفس فیصل آباد نے ناکوں چنے چبوادیئے۔اکثر جگہوں پر ایسا ہی دیکھنے کو ملتاہے البتہ کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں اس تناظر میں جب ڈاکٹرز کواپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے سرانجام دینے کیساتھ ایسے مسائل کاسامناکرناپڑتاہے سہی کوستے ہیں اس سسٹم کو!یہ سلسلہ ایک رورل ہیلتھ سنٹر سے لیکر ضلعی ہیڈ کوارٹرسے ہوتاہوا صوبائی دارالحکومت میں براجمان سیکرٹریز کے دفاتر تک چلتاہے اچھے برے لوگ ہر جگہ پر موجود ہیں۔پرائمری اینڈسکینڈری ڈیپارٹمنٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمن محترمہ عمارہ خان ہواکرتی تھیں بہت سنہری دور تھا ان کا ان کے دور میں کام بروقت ہوجاتے تھے ان کے بعد آنے والی محترمہ سائرہ رشید صاحبہ بھی ایک انتہائی نفیس خاتون ہیں یوں سمجھ لیجئے کہ محترمہ عمارہ خاں ثانی بیٹھی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے عملے کو شاید سمجھ نہیں پائیں ہیں کلریکل سٹاف ہسپتال سے لیکر صوبائی درالحکومت تک یکساں ہیں اچھے برے کاموں میں کوئی بھی ایک دوسرے سے کم نہیں ہے ان کے دفتر میں موجود کچھ سیکشن افیسر انتہائی نفیس انسان ہیں تو کچھ بہت ذیادہ پٹواری ٹائپ کی شہرت رکھتے ہیں سپیشلسٹ کیڈر کے سیکشن افیسر کارویہ کسی بھی طرح گرگٹ سے کم نہیں ہے ایک خاتون ڈاکٹر کیساتھ موبائل نمبرز کے تبادلے کے وقت ٹین ایجر لڑکے کی طرح نام پوچھے جانے پر کہتاہے آجکل مجھے فلاں نام سے پکارتے ہیں ایسی زہنیت کے حامل سیکشن افسر جو مہینوں مہینوں جان بوجھ کر کام لٹکائے رکھیں باوجود سیکرٹری صاحبہ کے حکم کے ایسوں کو کھڈے لائن نہ لگانے سے نیک نام افسران کی شہرت پر سوال اٹھتاہے جدید ٹیکنالوجی نے جہاں مسائل کوکم کیا وہاں کلیریکل عملے کی مشکلات میں شدید اضافہ کیاہے عملے کی کمی بے بہا ء ڈیش بورڈز کی نگرانی ٹریننگ کا نہ ہونا بغیر تیاری کے فوجی کو محاز جنگ میں کھڑا کرکے مروانے کے مترادف ہے ہمارے پالیسی سازوں کو اپنی پالیسیاں ازسرنو ترتیب دینی ہوں گی ورنہ یہ سسٹم کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتاہے منسٹر صاحبہ کی تبدیلی تو شاید کہیں گم ہوگئی ہے کلرک اکاؤنٹ آفس والوں سے الگ سے بلیک میل ہوتے ہیں اس مسئلے کا حل نکالنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے یاتو ڈاکٹرز کو ضروری ٹریننگ کروائی جائے یا پھر عملے کی کمی کو فوراََ پورا کیاجائے۔