تحریر۔۔۔مقصود انجم کمبوہ
یورپ میں بر س ہا برس سے زندگی کے تمام شعبوں خاص طور پر ٹیکنالو جی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ خواہ اقتصادی ہو یا سماجی یا سیاسی اس سے موثر طور پر نپٹنے میں تحقیق ہمیشہ اہم کردار ادا کرتی ہے مختصر یہ کہ انسانی زندگی کو بہتر سے بہتر اور مستقبل میں در پیش چیلنجز اور مسائل مشکلات پر قابو پانے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں مسلسل تحقیق لازمی ہے ایک جرمن اقتصادی ماہر کا کہنا ہے کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی اب دیگر اقوام کے مقابلے میں ہر آزمائش ہر زیادہ بہتر طور پر پورا اُتر سکتا ہے جرمنی کی بقاءکا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی کامیابیوں اور پیش رفت کا سلسلہ جاری رکھے یعنی موزوں اور موثر سرمایہ کاری کی جانی چاہئیے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف بنیادی تحقیق میں اپنا اعلیٰ معیار بر قرار رکھنا چاہئیے بلکہ اس شعبے میں مسلسل سرمایہ کاری بھی جاری رہنی چاہئیے بلا شبہ اب تحقیق پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے آنے والے ہر سال کے لئے سال گذشتہ کے مقابلے میں اس مد میں اخراجات کی رقم میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے صنعتیں اور حکومت دونوں ہی تحقیق پر کما حقہ توجہ دے رہی ہے اب وہ زمانے گئے جب سائنسدان اپنی تاریک تجربہ گاہوں میں اپنی زندگی تمام کر دیتے تھے اور ان کے کام کو جاننے اور سراہنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اب سائنسدان اور ان کی تحقیق گوشہ گمنامی ہی میں نہیں رہتے بلکہ یہ کام چھوٹی بڑی تمام کمپنیوں ، صنعتو ں اور یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے جو تحقیق کے اہم مراکز ہیں تحقیق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب بعض منصوبوں کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر تحقیق کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لئے مختلف ملکوں کے مشترکہ ادارے وجود میں آچکے ہیں جس کی نمایاں مثال یوریکا ہے وفاقی جمہوریہ جرمنی کی حکومت تحقیق کے فروغ کے لئے جو قدامات کرہی ہے اس سے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور مختلف شعبوں میں اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں بون کی وفاقی حکومت کے لئے یہ بات دلی اطمینان کا باعث ہے کہ یورپی برادری کے تحقیقی پروگرام اور یوریکا پروگرام سے یورپی برادری کے اتحاد اور یکجہتی کو بہت فائدہ پہنچا ہے وفاقی حکومت بار ہا واضح کر چکی ہے کہ یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ کمپنیوں اور صنعتوں کو بتائے کہ انہیں کس سمت میں پیش قدمی کرنی چاہئیے اپنے لئے شعبے اور سمت کا تعین خود سرمایہ لگانے والوں کا کام ہے البتہ حکومت ان کی مدد کرنے کے لئے مراعات اور سہولتیں فراہم کرتی ہے مثلاً ٹیکس میں رعایت ، ضابطوں میں نرمی کرنا پہلے سے موجود سرمایہ کاری شعبے کے اداروں کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کرنا اور اسی طرح کے کچھ اور اقدامات کے ذریعے ماحول کو نجی شعبے کے لئے ساز گار بناتی ہے اور اس کے بعد حکومت کمپنیو ں اور صنعتوں سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ نئی نئی ٹیکنالوجی دریافت اوراستعمال کر کے نئی چیزیں اور مصنوعات تیار کریں گی اور ان کھپت کے لئے نئی منڈیاں تلاش کریں گی 1990ءمیں جرمنی میں تحقیقی کے لئے مجموعی طور پر س70ارب مارک خرچ کیے گئے جس میں 45ارب مارک حکومت نے شیئر کیے جرمن حکومت نے 1990ءمیں اپنی مجموعی آمدنی کا 2.9%حصہ تحقیق پر خرچ کیا جو عملاً تحقیق کے میدان میں جاپان کے اخراجات کے برابر ہے یورپ میں جرمنی کے اس مد میں اخراجات سب سے زیادہ ہیں اگر ہم تحقیق اور مجموعی ترقی کے لئے کیے جانے والے اخراجات کا تقابلی جائزہ لیں تو ظاہر ہو گا کہ اس میدان میں جرمنی کے اخراجات امریکا اور جاپان کے برابر ہیں 1991ءمیں جرمنی نے اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 3.5%تحقیقی سر گرمیوں پر خرچ کیا ہم اپنی تحقیقی سرگرمیوں پر ہونے والے اخراجات کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس محدو د وسائل ہیں اس پر متضادیہ کہ ہم ان گنت مسائل و مشکلات کا شکار بھی ہیں جہاں انصاف نہ ہو وہاں امن نہیں ہوتا جہاں امن نہ ہو وہاں ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا ہم 73سالوں میں اپنی حقیقی منزل کا تعین ہی نہیں کر پائے آئے روز کی حکومتوں کی تبدیلی نے ہماری ترقی کی راہیں مسدود کر کھی ہیں کرپشن میں آئے روز اضافے نے غربت میں اضافہ کیا ہے سیاسی نظام مستحکم نا ہونے کے باعث انتشارکی فضا جنم لے رہی ہے لوٹا ازم میں سیاسی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اس قباہت نے سیاست میں غلاظت کو جنم دیا ہے ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران میں مبتلا ہیں وسائل کے غلط استعمال کے باعث ہم غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ہم تحقیقی میدان میں کئی سو سال پیچھے ہیں اگر کوئی انفرادی طور پر تحقیقی سر گرمیوں میں مصروف ہے تو اسے کسی قسم کا سرکاری و غیر سرکاری تعاون نہیں ملتا ویسے بھی ہمارے تحقیقی اداروں میں کرپشن کے عنصر نے تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کو آگے نہیں بڑھنے دیا تحقیق تو بہت دور کی بات ہم تربیتی نظام میں جدید انقلابی تبدیلیاں نہیں لا سکتے ہمارے بہت سے سرکاری فنی ادارے ایسے ہیں جہاں عملی تربیت کے لئے مالی وسائل فراہم نہیں کیے جارہے اسی لئے معیاری تعلیم و تربیت کا نظام ترقی نہیں کر سکا ہمارے فنی تربیتی محکمے میڈیا کو جو کچھ بتاتے ہیں اس میں ذرابھی حقیقت نہیں ہم اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرر ہے ہیں لیکن فنی تعلیم و تربیت پر خرچ کر نے سے کتراتے ہیں ہم نئے فنی تربیتی ادارے کھولتے جارہے ہیں جبکہ موجودہ اداروں میں دیکھ بھال یا پھر ان کی ترقی کے لئے مناسب اخراجات کرنے سے عاری رہتے ہیں مشاہدے میں آیا ہے کہ ہم صر ف منصوبے کاغذوں میں تشکیل دیتے ہیں عملی طور پر ہم بہت سُست واقع ہوئے ہیں افسوس کہ فنی توتعلیمی اداروں میں انتشار ، بد نظمی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر پائے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے معیار کو ارعلیٰ بنانے کے لئے جہاں وسائل کی فراہمی ضروری ہے وہاں نظم و ضبط اور دیانتداری بھی ضروری ہے ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ فنی تربیتی محکموں کی تنظیم نو انتہائی ضروری ہے موجودہ انتظامی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں مختلف شعبوں کی آپس میں کوارڈینیشن نہ ہونے کے باعث فنی تعلیمی معیار مفقود ہوتا جارہا ہے ہم جرمن تو نہیں بن سکتے لیکن پاکستانی بننے میں کیا رکاوٹ ہے ۔