تحریر: رشید احمد نعیم، پتوکی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک شہری کی کسی دیہاتی سے دوستی ہو گئی۔ جب کبھی دیہاتی شہر میں آتا تو اسی شہری دوست کے گھر ڈیرہ لگاتا اور دو دو تین تین مہینے اس کا مہمان رہتا۔ اس دوران شہری خوشی خوشی اس کی مہمان نوازی کرتا۔اس کی تمام بنیادی ضروریات پوری کرتا۔ہر لحاظ سے اس کا بہت خیال رکھتابلکہ اس کی خدمت میں رات دن ایک کر دیتا۔ ایک دن دیہاتی نے شہری سے کہا”بھائی جان آپ کبھی ہمارے گاؤں تشریف نہیں لاتے۔اگر آپ میرے غریب خانے آئیں تو مجھے دلی خوشی ہو گی۔
آج کل بہار کا موسم ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اہل ِ خانہ سمیت مجھ نا چیز کو مہمان نوازی کا شرف بخشیں۔ اگر فوری طور پر مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہیں تو گرمیوں میں ضرورتشریف لائیے اس وقت پھلوں کا موسم ہوتا ہے۔ آپ کی خدمت کا خوب موقع مل جائے گا۔ ہو سکے تو اپنے اہل و عیال کے ساتھ تین چار ماہ کے قیام کا پروگرام بنائیے گا۔ ویسے توموسم بہار کے اپنے ہی نظارے ہوتے ہیں۔ان دنوں میں دیہات کی فضا بڑی خوشگوار ہوتی ہے۔ ہر طرف سبزہ لہلہا تا ہے اور پھول جھومتے ہیں۔آپ دیکھیں گے تو خوش ہو جائیں گے۔
شہری اس کی باتیں سن کر کہہ دیتا کہ”اچھا بھائی! کبھی موقع ملا تو ضرور آئیں گے“۔ دیہاتی جب زور دیتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اس کو ٹال دیتا۔ کبھی کہتا کہ فلاں جگہ سے ایک مہمان آیا ہوا ہے۔ کبھی کہتا اس سال بہت ضروری کاموں میں مصروف ہوں۔ اگلے سال فرصت ملی تو ضرور آؤں گا۔وقت گزرتا رہا۔ پانچ سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔ دیہاتی ہر سال آتا اور با مروت شہری دل کھول کر اس کی خدمت کرتا۔ ایک دفعہ وہ مسلسل تین مہینے شہری کے گھر میں برا جمان رہا اور صبح و شام خوب خوب دعوتیں اڑائیں۔ جاتے وقت پر زور اصرار کرنے لگا کہ”صاحب! ہمیں کب تک وعدوں پر ٹرخاتے رہیں گے۔ آپ کا انتظا کرتے کرتے اب تو ہماری آنکھیں بھی پتھرا گئیں ہیں“
َ شہری نے کہا کہ”بھائی!تمہارے پاس جانے کو میر اپنا بہت دل چاہتا ہے لیکن ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ انسان تو ایک بادبانی کشی کی مانند ہے۔ اس کشتی میں اس وقت حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہوا چلائے گا“۔ دیہاتی نے کہا کہ”اس سال بال بچوں کے ہمراہ ضرور تشریف لائیے“۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر تین بار وعدہ لیا کہ ضرور آنا۔ شہری نے گاؤں جانے کی حامی تو بھر لی لیکن پھر ایسے کاموں میں مشغول ہوا کہ دوبرس اور گزر گئے۔ ایک دن اس کے بچوں نے کہا کہ”ابا جان! چاند بادل اور سایہ بھی سفر کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے دیہاتی دوست کی مہمان داری اور خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور خود تکلیف اٹھا کر بھی اس کو آرام پہنچایا ہے۔ اس کو بھی اپنے احسانات کا حق ادا کرنے کا ایک بار موقع دیجئے۔ وہ کئی بار اصرار،خلوص اور خوشامد سے آپ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے چکا ہے۔ اگر آپ نہ جائیں گے تو اس کادل ٹوٹ جائے گا۔شہری نے کہا کہ”تم سچ کہتے ہو لیکن عقل مندوں اور سیانوں نے کہا ہے کہ ”جس سے تم بھلائی کرو اس کے شر سے بچو“۔ اس وقت تو اس نے بچوں کو ٹال دیا لیکن دیہاتی نے خوشامد کا کچھ ایسا جال بچھایا ہوا تھا کہ ایک بار دوبارہ بچوں کے اصرار پر شہر ی گاؤں جانے پر آمادہ ہو ہی گیا۔ بچوں کو معلوم ہوا تو وہ مارے خوشی کے پھولے نہ سماتے تھے۔ جس دن شہری اپنے اہل و عیال سمیت گاؤں کی طرف روانہ ہوا وہ اس کے بچوں کے لئے گویا عید کا دن تھا۔ گو سفر بڑا طویل اور صبر آزما تھا لیکن گاؤں جانے کی خوشی میں وہ اس کو دوڑ بھاگ کر طے کر رہے تھے۔ ان کے دلوں اور دماغوں میں گاؤں کی پر بہار فضا بسی ہوئی تھی اور اسی کے تصور میں ان کا راستہ ہنسی خوشی کٹ رہا تھا۔ جب وہ کسی پرندے کو گاؤں کی جانب پرواز کرتا دیکھتے تو ان کا جی چاہتاکہ اس کی طرح اڑ کر وہ بھی جلد از جلد گاؤں جا پہنچیں۔ اگر راستے میں کسی دیہاتی کو دیکھتے تو اس کو بے اختیار گلے لگا لیتے اور پوچھتے کہ”بھائی! تو نے ہمارے عزیز دوست کو بھی دیکھا ہے۔ اس طرح یہ تھکا ماندہ قافلہ پر صعوبت سفر کے بعد گاؤں جا
پہنچا۔مگر وہ دیہاتی نہایت مکار اور احسان فراموش نکلا۔ اس کو شہری کی آمد کا حال معلوم ہووا تو انجان بن کر کہیں ادھر ادھر ہو گیا۔ دراصل یہ شخص بڑا کمینہ اور بد فطرت تھا اور شہری کی مہمانداری سے بچنا چاہتا تھا بے چارہ شہری لوگوں سے اس کے گھر کا پتہ پوچھ کر بڑی بے تکلفی سے وہاں پہنچا لیکن اس کمینے کے اہل خانہ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ شہری کو صدمہ تو بہت ہوا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔
مجبور ہو کر اپنے بال بچوں سمیت دروازے کے سامنے ہی ڈیرہ لگا لیا۔ جوں ہی وہ دیہاتی نظر آتا شہری اس کو سلام کرتا اور اس کو یاد دلاتا کہ”میں تمہارا فلاں دوست ہوں ”۔ دیہاتی اس کو دور ہی سے جواب دیتا تھا کہ”میں نہیں جانتا تو کون ہے؟۔ میں تو دن رات ذکر ِحق میں مشغول رہتا ہوں اور اللہ کی عبادت کے سوا مجھ کو کسی کا ہوش نہیں“۔ شہری کہتا کہ”شاید قیامت کا وقت آگیا ہے کہ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں۔ ارے بھائی! کیا تو برسوں میرا مہمان نہیں رہا؟۔ آخر میں نے تیری خدمت میں کونسی کوتاہی کی تھی؟“۔ لیکن بے حیاد یہاتی اس کو یہی جواب دیتا تھا کہ”معلوم نہیں تو کیا کہہ رہا ہے؟۔ میں نے تو کبھی تیری شکل بھی نہیں دیکھی”۔ اسی حالت میں بیچارے شہری کو پانچ دن گزر گئے۔ پانچویں شب غضب کی بارش ہو گئی۔ شہری اور اس کے بچے پانی میں شرابور ہو گئے۔ بیچاروں کے پاس سر چھپانے تک کی جگہ نہ تھی۔ جس طرح شریف لوگ بے بسی کے عالم میں کمیوں کے محتاج ہو جاتے ہیں اسی طرح شہری بھی مجبور ہو کر دیہاتی کے دروازے پر گیا اور بہت رویا دھویا لیکن وہ ظالم تیوری چڑھائے ہوئے دروازے پر آیا اور پوچھا کہ”آخر تو کیا چاہتا ہے“؟ شہری نے کہا”بھائی!میں نے اپنے سب حقوق چھوڑے۔ جو کچھ میں سمجھا تھا بلا شبہ وہ غلط تھا۔ ہم نے جو پانچ دن گزارے وہ پانچ برس کے برابر تھے لیکن اب بارش کی تکلیف اٹھانے سے میری اور میرے بچوں کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔ خدا کے لئے ہمیں اپنے مکان کے کسی گوشے میں پناہ لینے دے۔خدا آخرت میں تجھ کو اس کی جزاد ے گا اگر تجھے یہ منظور نہیں پھرمجھے قتل کر ڈال۔ میں اپنا خون تجھ پر حلال کرتا ہوں“۔ دیہاتی نے کہا کہ”میں نے اپنے مکان کا گوشہ باغبان کو دے رکھا ہے۔ ہم نے اس کو بھیڑیئے سے جانوروں کی حفاظت بھی سونپ رکھی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم اس کو تیر و کمان دے دیتے ہیں تاکہ اگر بھیڑیا آئے تو اس کو مار دے اگر تو یہ کام کر سکتا ہے تو وہ جگہ ہم تجھے دے دیتے ہیں ور نہ کوئی اور جگہ ڈھونڈ لے“۔ شہری نے کہا کہ”اس وقت میں ایسی سوخد متیں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ تیر و کمان میرے حوالے کیجئے اور پھر دیکھئے کہ آپ کے باغ اور مویشیوں کی کس مستعدی سے نگرانی کرتا ہوں۔ اگر بھیڑیئے کی بھنک بھی میرے کانوں میں پڑ گئی تو آواز پر تیر چلا کر اس کو ہلاک کر دو ں گا“۔ غرض اس وعدہ پر وہ اپنے اہل و عیال سمیت باغبان کی کوٹھڑی میں آگیا۔ وہ جگہ نہایت تنگ اور سیلی تھی اور اس پر کیڑے مکوڑے مستزاد، بے چارے مصبیت میں پھنس گئے۔
ساری رات ان کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ یہ نا اہل اور کمینے سے دوستی کی سزا ہے۔ بہر حال شہری تیر و کمان ہاتھ میں سے لئے اپنا فرض بجا لا رہا تھا۔ رات کے پچھلے پہر بھیڑیئے کی قسم کے ایک جانور نے ٹیلے کی اونٹ سے سر نکالا۔ شہری نے تاک کر اس پر تیر چلایا تو وہ جانور زمین پر گر پڑا اور اس کی ہوا خارج ہو گئی۔ دیہاتی نے یہ آواز سنی تو وہیں سے دہائی دینے لگا کہ”ارے ظالم!یہ تو نے کیا غضب کیا؟۔ یہ تو میرا خر بچہ (گدھی کا بچہ) تھا تو نے اس کو ناحق مار ڈالا۔ شہری نے کہا ہر گز نہیں یہ تو بھیڑیا تھا تم اچھی طرح دیکھ کر تسلی کر لو۔ دیہاتی نے کہا کہ میں اپنے خر بچہ (گدھی کے بچے) کی آواز خوب پہنچانتا ہوں۔ ارے میں تو جانوروں کے گوزوں سے اپنے جانور کے گوز کی آواز پہچان لیتا ہوں۔ اب شہری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے لپک کر دیہاتی کا گر بیان پکڑ لیا اور کہنے لگا اے مکار کمینے! تو اس اندھیری رات میں اپنے خر بچے کے گوز کی آواز پہچان لیتا ہے لیکن نہیں پہچانتا تو اس شخص کو جس نے پانچ برس تک دل و جان سے تیری خدمت کی ہے۔ تو دعویٰ کرتا تھا کہ اللہ کے سوا تجھے کسی شے کا ہوش نہیں ہے اور تو ہر وقت عالم تحیر میں رہتا ہے لیکن اللہ کی غیرت جوش میں آئی تو بچے کی گوز کی آواز نے تجھے رسوا کر دیا۔ حق تعالیٰ مکاروں اور کمینوں کو اسی طرح رسوا کر تا ہے۔ تجھے عشق الہٰی کا دعویٰ ہے، لیکن فی الحقیقت تو شیطان کا عاشق ہے۔ ارے بد بخت ان چالبازیوں کو چھوڑ اور عاشقان الٰہی کا دامن پکڑ کر سیدھا راستہ اختیار کر۔ آج کل ہمارے ارکان اسمبلی بھی اس دیہاتی کی طرح سب کچھ بھول جانے کی اداکاری کر رہے ہیں وفاقی و صوبائی وزراء سمیت ارکان ِ اسمبلی آج عوام، اخلاق،قانون،آئین اور انصاف کی اقدار کو فراموش کرکے جو بیان بازی کر رہے ہیں، جس طرح حکومتی غیر تسلی بخش کارکردگی کا دفاع کرتے ہو ئے اپنے منہ سے آگ کے شعلے نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور عوامی مسائل سے مکمل غافل ہو کر عوام اور قانون کو پہچاننے سے انکار کر تے ہوئے صرف اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں،جس عوام کے ووٹوں کی بدولت آج اس مقام پر پہنچے ہیں اُن کا ہی جینا دو بھر کر رکھا ہے۔
عوام مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور بد عنوانی کا رونا روتی ہے مگر یہ اشرافیہ اُن کو جاننے اور پہچاننے سے ہی انکاری ہے اوراحسان فراموشی کی بد ترین داساتین رقم کرر ہی ہے۔ حیرت ہے اِن کی سوچ پر کہ جو ووٹرز اِن کے ناز نخرے اٹھاتے رہے، اِن کی آو بھگت کرتے رہے،اِن کے لیے محافل کا انعقاد کرتے رہے،اِن کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرتے رہے، آج وہی چہرے اِن کے لیے نا اشناء بن چکے ہیں۔ قانون سازی کے لیے منتخب ہونے والے ارکان ِ اسمبلی و وزراء آج اسی قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اُس دیہاتی کی طرح اِن کے پاس ہر مسئلے کے جواب میں صرف ایک ہی بات ہے کہ ہم جمہوریت بچانے میں مصروف ہیں۔ ارے بھائی! عوام کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو وقت کی روٹی چاہیے، چادر اور چار دیواری کا تحفظ چاہیے،امن و سکون کی فضاء چاہیے، تعلیمی و صحت کی سہولت چاہیے،بنیادی حقوق کی پاسداری چاہیے مگر آپ کو اپنے”اللوں تللوں ”سے ہی فرصت نہیں ہے۔ شائد آپ کسی قانون کی لاٹھی کے منتظر ہیں جس کے اٹھنے سے آپ کے اقتدار کے نشے کی وجہ سے گم شدہ حواس بحال ہو جائیں اور ویسے بھی کتاب ماضی کی ورق گردانی کی جائے تو آپ کا ماضی بتاتا
ہے کہ آپ صرف”بوٹوں والی سرکار“کی زبان ہی سمجھتے ہیں اور اس کے بعد ہی آپ کو وہ عوام نظر آنا شروع ہو تی ہے جسے آج آپ بھول چکے ہیں اور ان کو کیڑے مکوڑے سمجھ رہے ہیں۔ابھی وقت ہے آپ کے پاس کہ آپ عوام کو اپنا سمجھیں اور ان کے مسائل حل کریں تاکہ وہ بھی آپ کو اپنا سمجھیں ورنہ سب کچھ گنوا کر تو بیوقوف بھی سمجھ جاتے ہیں۔آنکھیں کھولیں اور اس عوام کو پہچانیں جو کھبی آپ کی خدمت گزار رہی ہے ورنہ احسان فراموش افراد ہوں یاا قوام ان کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوتا